پل پل میں یاد کروں تم کو۔۔سفیر احمد خسرؤ

Print Friendly, PDF & Email

کْلّْ نَفسٍ ذَاءِقَتہ المَوتِ ۔۔۔
اس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ مو ت ایک اٹل حقیقت ہے جو ہرجاندارکوآنی ہے،کوئی ذی روح اس حقیقت سے انکارنہیں کرسکتا۔ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر،موت کو یقینی مانتاہے۔ ہر جاندار کے لئے موت کاوقت اور جگہ مقررہے۔ہر ایک کو اسی ٹائم اسی دنیاسے جاناہوتاہے۔۔چاہے وہ امیر ہویا غریب،بادشاہ ہویافقیر۔۔ ایک انسان کی جب موت واقع ہوجاتی ہے۔تب وہ اس دنیاسے وہ ساری چیزیں چھوڑ کرچلا جاتاہے جو وہ جمع کئے ہوتاہے۔اس دنیا سے جانا بھی ہوتاہے تو سب کچھ چھوڑ کے۔چاہے وہ مال کی صورت میں ہو،دولت کی صورت میں ہو،چائیداد کی صورت میں ہو والدین کی صورت میں،اولاد کی صورت میں ہو،بہن بھائی کی صورت میں ہو، رشتے داروں کی صورت میں ہویاکچھ اور۔۔بس خالی ہاتھ جاناہوتاہے۔اور جو چیز انسان کے ساتھ جائے گی وہ ہیں اس کے اچھے اعمال۔۔۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جوموت کے بعد بہت کی یادیں اوربہت سی باتیں چھوڑجاتے ہیں۔۔ان کی موت سے نہ صرف ان کے گھروالوں کودکھ ہوتاہے بلکہ پورے معاشرے میں ماتم سی چھاجاتی ہے۔یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کاخوش اخلاقی،نرم گوئی، بڑوں کی عزت اوربچوں پر شفقت،نیکی اوربھلائی کے کاموں میں آگے آگے، عوامی خدمت اور دوسرے اچھے کاموں کی وجہ سے معاشرے میں نام ہوتاہے اوریہ لوگ ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
موت جب آتی ہے تویہ کسی بڑے کو دیکھتاہے اور نہ کسی نوجوان اور بچے کو۔اس دنیا میں جس کے رہنے،کھانے پینے اور سانس لینے کاوقت ختم ہوتاہے تواسی وقت چاہے وہ جہاں بھی ہو، چاہے پوری دنیااس کے ساتھ ہو،دنیاکے سب سے بڑے اسپتال اور بڑے معالج کے پاس کیوں نہ ہو،اس بندے کی روح اس ٹائم ہی پرواز کرتی ہے۔دنیا کی ساری طاقتیں بھی مل کر کسی کو ایک لمحے کی زندگی نہیں دے سکتیں۔
ذرا غور فرمائیے! ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہے ہیں،گردش لیل ونہار عمرعزیز کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔جو چیزہرروز کم ہوتی رہتی ہے وہ بالآخر ختم ہی ہو جاتی ہے جو لمحہ گزر جاتا ہے کبھی واپس نہیں آتا۔ اگر یقین نہیں آتا تو بتائیے آپ کا لڑکپن کدھر گیا؟ جوانی کدھر گئی؟عمررفتہ کتنی تیزی سے بیت گئی،کچھ پتہ بھی چلا؟
3 اگست کادن میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا۔اسی دن ایسے ہی ایک انتہائی افسوسناک خبرمجھے ملی جب میں آفس میں کام میں مصروف تھا۔فون کی گھنٹی بجی۔دیکھا تو ایک دوست کی کال تھی۔کال ریسیو کرنے کے بعدان کی پریشانی اورتیزتیزباتوں سے مجھے اندارہ ہوگیا کہ کوئی بری خبرہے۔وہ دوست بھی پوری خبرسے آگاہ نہیں تھا،انہوں سے صرف مجھ سے کنفرم کرنے کے لئے میرانمبرملایاتھا۔۔حالانکہ مجھے تواس واقعے کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں۔۔
کال کے بعدمیری پریشانی اوربھی بڑھ گئی۔۔پریشانی کا یہ عالم تھا کہ اپنی والدہ محترمہ کاموبائل نمبر بھی بھول گیا۔بڑی مشکل سے چھوٹے بھائی کا نمبرملا۔۔ان کانمبر ملایا تو وہ زاروقطار رورہاہے وہ مجھ سے بات بھی نہ کرسکا۔بس صرف ایک ہی بات اس کی سجھ آئی۔شہزاد شہزادکہا اور فون بند کردیا۔۔ شہزادکانام سنتے ہی موبائل ہاتھ سے گرگیااور آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ شہزاد جیسے صحت منداور مضبوط نوجوان اتتی جلدی ہمیں اکیلے چھوڑ کرچلاجائے گا۔پھر بھی دل کو تسلی دیتارہاکہ یہ خبرغلط ہوگی۔پھرتھوڑی دیربعدوالدہ کے نمبرسے کال آئی۔انہوں نے خبرکی تصدیق کردی۔مگرپھر بھی یقین نہیں آرہاتھا۔ خبرسن کراس وقت جو حال ہوا وہ تو خدا ہی کومعلوم ہے۔۔بس آفس میں ایک منٹ کے لئے بھی رک نہ سکا۔ دوست نے موٹرسائیکل پرڈرااڈہ پہنچادیا۔۔توچترال کے لئے روانہ ہوا۔
شہزادکی موت کی خبرجنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی۔ پھراس کے بعد کالیں آنے کاسلسلہ شروع ہوا۔کسی سے بات ہوئی تو کسی کی کال ڈراپ ہوگئی۔۔
شہزاد خسرؤمیرے کزن ہونے کے ساتھ میرا سب سے اچھا دوست تھا۔شہزاد ایک نہایت مخلص،سادہ لوح،دوسروں کوعزت اور بچوں پرشفقت کرنے والا،انتہائی مہذب و شائستہ نوجوان تھا۔۔ 1986 میں سرزمین برنس میں آنکھیں کھول لیں۔زندگی کاان کاسفرصرف 33 سال تک محدودرہا۔ رات کوکھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں جاکرسوگیا۔۔رات کو سانسوں سے ساتھ چھوڑدیا۔صبح گھروالوں نے جاکرآوازیں دیں تواندرسے کوئی جواب نہیں ملا۔جب کمرے کادروازہ توڑ کراندرگئے توشہزاداس وقت آخری سانسیں لے رہاتھا۔ بس یہی ہے زندگی۔۔ کیونکہ ہر کسی نے موت کامزہ چکھناہے۔
شہزاد خسرؤاعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کیساتھ ساتھ والی بال،کرکٹ اور فٹ بال کا بھی ایک نامور کھلاڑی تھا،،سپورٹس سے اتنی محبت کہ ضلعی سطح پر کئی ٹیموں کی نمائندگی کرچکے تھے۔اس کے علاوہ ضلع سے باہر پشاور،کوہاٹ،اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں بھی بہت سے میچز کھیل چکے تھے۔۔ ان کیساتھ پشاورمیں گزارے کئی سال کبھی بھی بھول نہیں سکتا۔جب وہ تعلیم کے سلسلے میں پشاورمیں تھا۔۔پردیسی کے علاوہ گھرمیں بھی زیادہ تروقت ہمارا ایک ساتھ گزرجاتاتھا۔۔
کہتے ہیں کہ ایک اچھے انسان کی موت سے پورا گاؤں خالی ہوجاتاہے۔شہزادتوخودچلا گیا مگرپورے گاؤں والوں کورلا کرچلاگیا۔۔
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا۔۔
شہزاداپنی خوش اخلاقی اور نرم مزاج کی وجہ سے مشہورتھا۔۔زندگی کے سفرمیں جتنے ہوسکے بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چاہے گاؤں کا اجتماعی کام ہو یاکسی کا ذاتی۔ خوشی ہو یا غم۔ ہرجگہ شہزادہی تھاجوسب سے آگے نظرآتاتھا۔کبھی کسی کام سے انکارنہیں کیا۔وہ ہمیشہ یہی کہاکرتے تھے کہ زندگی میں کسی کے کام آنا اور دعائیں لینا سب سے بڑی چیزہے یہی وجہ تھی کہ کوئی اگر کسی کام کاکہہ دیں تو وہ انکار نہیں کرتاتھا۔
(ہے زندگی کامقصد اوروں کے کام آنا)
بس شہزاداسی بات پر عمل پیراتھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی موت پر نہ صرف پورا گاؤں خون کے آنسو رورہاہے بلکہ پورے چترال میں جتنے
ان کے جاننے والے ہیں یا دوست۔ سارے افسردہ ہیں۔۔
شہرادکاہروقت ہنستامسکراتاچہرہ جب بھی آنکھوں کے سامنے آتاہے۔توان کے ساتھ بیتے ہرپل کی یادیں دل کوچورچورکردیتی ہیں۔ اور زخم پھرسے تازہ ہوجاتے ہیں۔ اوردل خون کے آنسو روناشروع کردیتاہے۔
بس مختصریہ ہے کہ شہزادکی زندگی اتنی مختصرتھی اس نے ہمارے ساتھ جتنا وقت گزارا، وہ ہمیشہ یاد آئے گا۔بس اب ہم ان کے لئے صرف دعاہی کرسکتے ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائیں۔۔شہزادخسرؤکوتین اگست کو دوپہردو بجے ان کے آبائی قبرستان میں ہزاروں اشکبارآنکھوں کے سامنے سپردخاک کردیاگیا۔۔بس اب شہزادسے ملاقات روز ہی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یہ دنیا فانی ہے ایک نہ ایک دن سب سے اس دنیاسے کوچ کرناہے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ راجِعْونَ