گرم چشمہ، چومبور پل 24 اپریل سے ناقابل استعمال ہے

Print Friendly, PDF & Email

گرم چشمہ(نمائندہ چترال میل) وادی گرم چشمہ کو باقی دنیا سے ملانے کا واحد ذریعہ چومبور پل گزشتہ دس سال سے سی اینڈ ڈبلیو کے لئے ایک دودھ دینے والی گائے کی شکل اختیار کرچکی ہے ہر مہینے اس پل کی مرمت پر لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں مگر نتیجہ صفر بٹہ صفر۔ حالیہ دنوں اس سلسلے میں وزیر اعظم کمپلین سیل تک عوامی شکایت پہنچانے کے بعد متعلقہ محکمے کے ذمہ داروں نے اپنا جواب جمع کروایا کہ اب پل کی مرمت کرکے اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ 30 ٹن وزن آسانی سے برداشت کرسکے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ آج بھی 10 ٹن وزن والے ٹرک کو پل سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ بلکہ پل کی حالت اتنی نا گفتہ بہ ہے کہ 5 ٹن وزن والی گاڑیاں بھی پل کراس کرنے سے گھبراتی ہیں۔ کچھ دن پہلے پل کی مرمت کے نام پر جو کام ہوا ہے اس سے مزید مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔انتہائی ناقص لکڑی کا استعمال ہوا ہے جو ابھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ لوہے کی پلیٹیں جو لگائی گئی ہیں وہ بھی اکھڑ چکے ہیں اور لوہے کے پلیٹ لگانے کے جو کیل استعمال کئے گئے ہیں وہ پل کی سطح سے تین سے چار انچ باہر نکلے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے روزانہ کی بنیادوں پر ٹیکسی اور عام گاڑیوں کے ٹائر پھٹ جاتے ہیں۔ اس دفعہ مرمت کے نام پر پل کے آرگنیک ڈیزائن کو ہی تبدیل کردیا گیا ہے پل کے ٹوٹے ہوئے شہتیروں کو سہارا دینے کے لئے سریا کے بنے ہوئے ہک نمائشی طور پر لگائے گئے ہیں۔ ان ہک کے نٹ بولٹ بغیر کسی کوشش کے ہاتھ لگانے سے کھل جاتے ہیں۔ پل کے پرانے مظبوط شہتیروں کو جگہ جگہ ویلڈ کرنے کے نام پر مزید کمزور کردیا گیا۔ پل کے پرانے ڈائزائن میں ہر شہتیر کے دونوں کونوں پر 28 نٹ لگائے گئے ہیں جبکہ اب مرمت کے نام پر وہ نٹ بھی نکالے گئے ہیں اور صرف 4 نٹ لگے ہوئے ہیں۔ جس سے پل مزید کمزور ہوگیا ہے۔ 24 اپریل 2019 سے اب تک کوئی ٹرک اس پل پر سے نہیں گزرا ہے۔ گرم چشمہ کے پر امن عوام نے وزیراعظم اور وزیراعلی سے اپیل کی ہے کہ گرم چشمہ میں آلو کی فصل تیار ہے اور اس فصل کو مارکیٹ تک لانے کے لئے انہیں گزشتہ دس سال سے اس پل پر لوٹا جاتا ہے۔ انہیں اس لوٹ مار سے نجات دلائی جائے۔ یا تو اس مقام پر آر سی سی پل تعمیر کیا جائے یا پھر پل کے ٹوٹے ہوئے تمام شہتیر روزانہ کی بنیاد پر ویلڈ کرنے کے بجائے ایک ہی دفعہ تبدیل کئے جائیں۔ اور گرم چشمہ کے عوام کو شدید ذہنی اور مالی نقصان سے بچایا جائے۔ اس سلسلے میں علاقے کی سیاسی نمائندوں اور انتظامیہ کی مسلسل خاموشی کسی بڑے سانحے کو جنم دے سکتی ہے