اسلام آباد(ویب ڈیسک) وفاقی وزارت داخلہ نے ملک میں کام کرنے والی 21 بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو اپنے دفاتر دو ماہ میں بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں میں ایکشن ایڈ، اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن، پلان انٹرنیشنل اور ٹرو کیئر شامل ہیں۔
ان بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو پاکستان میں جاری اپنے منصوبے بند کرنے کے بارے میں حکومت کی طرف سے وجوہات کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا۔
یاد رہے کہ 2015 میں حکومت پاکستان نے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی فلاحی تنظیم‘سیو دی چلڈرن’کا ملک میں دفتر سیل کر دیے تھے تاہم بعد میں یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی۔
اس وقت حکومت نے اس تنظیم کا آپریشن پاکستان میں بند کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ‘یہ تنظیم ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھی جو پاکستان کے مفاد کے خلاف تھیں اور جس سے متعلق خفیہ اداروں نے بھی متعدد بار رپورٹس پیش کی تھیں‘۔
وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق جن بین الاقوامی این جی اوز کو اپنے دفاتر بند کرنے کے بارے میں دو ماہ کی مہلت دی گئی ہے ان میں ایسی تنظیمیں بھی ہیں جنھوں نے پنجاب اور صوبہ سندھ کے علاقوں میں بھی اپنے منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ گلگت بلتسان اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والی تنظیمیں بھی ان میں شامل ہیں۔ جن تنظیموں کو دفاتر بند کرنے کے لیے کہا گیا ہے ان میں سے متعدد نے حکومت سے اس فیصلے پر نظرثانی کے لیے کہا ہے۔ وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر 139 آئی این جی اوز نے آن لائن رجسٹریشن کے لیے درخواستیں دی تھیں جن میں سے 66 کی رجسٹریشن ہو چکی ہے جبکہ 73 آئی این جی اوز کی رجسٹریشن کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے۔ منظور شدہ تنظیموں کی جو فہرست جاری کی گئی ہے اس میں فرانس اور بیلجیئم سے تعلق رکھنے والی طبی امداد کی تنظیم میڈسن ساں فرنٹیئر یعنی ایم ایس ایف بھی شامل ہے تاہم گذشتہ دنوں اس تنظیم کو کرم اور باجوڑ ایجنسی میں اپنی طبی سہہولتیں بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے خفیہ اداوں کی طرف سے دی جانے والی رپورٹس کی روشنی میں پاکستان میں کام کرنے والی انٹرنیشل این جی اوز کی رجسٹریشن سے متعلق پالیسی وضع کی تھی کہ کوئی بھی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم اس وقت تک پاکستان میں کام نہیں کریں گی جب تک وہ اپنے آپ کو نئی پالیسی کے تحت رجسٹرڈ نہیں کروا لیتی۔ یہ پالیسی یکم اکتوبر 2015 میں منظور اور نافذ کی گئی تھی۔ وزارت داخلہ نے ان این جی اوز کو آن لائن رجسٹریشن کے لیے چند ماہ کی مہلت بھی دی تھی۔ جن تنظیموں کو اپنے منصوبے ختم کرنے کے لیے کہا گیا ہے ان میں پلان انٹرنیشل، اوپن سوسائٹی فاؤنڈشین اور ایکشن ایڈ انٹرنیشنل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اُنھیں وزارت داخلہ کی طرف سے پاکستان میں اپنے منصوبے60 روز میں بند کرنے کے بارے میں خط موصول ہوا ہے۔
بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کا مختصر تعارف:
پاکستان ہیومنیٹریئن فورم کے مطابق بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیموں سے تقریباً تین کروڑ افراد کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے 2016 میں 28 کروڑ ڈالرز ترقیاتی اور امدادی منصوبوں پر لگائے۔
یہ تنظیمیں پانچ ہزار افراد کا ذریعہ ملازمت بھی ہیں، لیکن جنھیں دو ماہ میں سرگرمیاں ختم کرنے کا کہا گیا ہے وہ کن شعبوں میں کام کر رہی ہیں؟
ایکشن ایڈ: پاکستان بھر میں غربت کے خاتمے کے منصوبے پر سنہ 1992 سے کام کر رہی ہے۔
اوپن سوسائٹی: اس تنظیم نے 2005 میں ملک میں تباہ کن زلزلے کے تناظر میں سرگرمیاں شروع کیں۔ اس وقت اس نے 30 لاکھ ڈالرز کی رقم ان منصوبوں پر خرچ کی۔
اس تنظیم نے ملک میں 2008 میں فاؤنڈیشن اوپن سوسائٹی انسٹیٹیوٹ بھی شروع کیا جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر بچوں کی کم عمری میں تعلیمی مراکز اور حکومت کی شفافیت میں مدد کرتی رہی ہے۔ سنہ 2010 کے سیلاب میں تنظیم نے 60 لاکھ ڈالرز امداد کی۔
پلان انٹرنیشنل: یہ تنظیم 1997 سے سرگرم ہے اور گذشتہ برس اس نے 11 لاکھ بچوں کی مدد کی۔ ان کے تعلیم، صفائی اور صحت کے حقوق کو یقینی بنانے کی کوششیں کیں۔
انٹرنیوز: میڈیا کی ترقی، صحافیوں کی تربیت اور حکومت میں شفافیت کے لیے کام کیا۔
میری سٹوپس: یہ تنظیم سنہ 1990 سے پاکستان میں مانع حمل اور تولیدی صحت کے شعبوں میں کام کر رہی ہے۔ اس کے مطابق وہ پانچ لاکھ عورتوں کو صحت کی سہولتیں مہیا کرتی رہی ہے۔
پاتھ فائنڈر: یہ تنظیم بھی سنہ 1985 سے پنجاب اور سندھ میں تولیدی مسائل اور مانع حمل کے شعبے میں عورتوں کی مدد کرتی رہی ہے۔
بی آر اے سی: یہ تنظیم سنہ 2007 میں پاکستان آئی اور غربت کے خاتمے، مائیکرو فنانس اور صحت اور تعلیم کی رسائی کو آسان بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔
ورلڈ وژن: ہنگامی صورتحال میں امداد پہنچانے والے یہ تنظیم بھی 2005 میں پاکستان آئی۔ ان کی سرگرمیاں بھی پنجاب اور سندھ میں مرکوز ہیں۔
ڈی آر سی: ڈینش ریفوجی کونسل 2010 میں پاکستان آئی اور افغان پناہ گزینوں کے امدادی منصوبے چلاتی رہی۔
ٹروکیئر: اپنے 1973 میں قیام کے وقت سے پاکستان میں سرگرم ہے لیکن اس نے اپنا دفتر سنہ 2007 میں پاکستان میں کھولا۔ اس کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس اس نے 97 ہزار افراد کی انصاف، حقوق انسانی اور انسانی بنیادوں پر مدد کی۔
آئی آر ڈی: انٹرایکٹو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ نامی یہ تنظیم صحت کے شعبے خصوصاً ٹی بی کے خاتمے میں مصروف عمل تھی۔
حکومت نے اسامہ بن لادن کے معاملے میں شکیل آفریدی کے واقعے کے بعد تمام غیر ملکی فلاحی تنظیموں کی دوبارہ رجسٹریشن کا فیصلہ کیا تھا۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات