صدا بصحرا۔۔ سر د ر یاب پُل۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Print Friendly, PDF & Email

چار سدہ کے قر یب سر د ر یاب پُل کی 80 سال تاریخ ستمبر 2017 ؁ء میں انجام کو پہنچ گئی رات ایک بجے پل ٹو ٹ گیاڑک نیچے گری ڈرائیورجان بحق ہوا یہ پُل تاریخی پُل تھا انگریز وں کی شاندار ماضی کی نشانی اس پر نظر آتی تھی مچنی پل، چکدرہ پُل، اٹک پُل اورجلا لہ پل کی طرح یاد گار پُل تھا انگریز وں کے دور میں سفر مینا کے ذریعے ایسے پل تعمیر کئے جاتے تھے ذرا تصور کیجئے 1937 ؁ء میں جب چار سدہ کے نواح میں سر در یاب پُل تعمیر ہوا علاقے میں ذرائع آمد و رفت کیا ہونگے تانگے اور بیل گاڑیاں ہوگھوڑے، خچر، گدھے اور کشتیاں ہونگی انگریز وں نے سڑکیں بنائیں،پُل بنائے، ریلوے ٹریک بچھا یا 1860 ؁ء سے 1937 ؁ء تک 77 سالوں میں وادی پشاور، ملاکنڈ، ہزارہ اور جنوبی اضلاع کو دہلی، ممبئی، لاہور، ڈھاکہ،مدراس اور ملتان کے برابر لاکر دکھا یا سردریاب پُل ٹوٹنے کی خبر میں لکھا گیا ہے کہ گذشتہ 70 سالوں میں ہماری حکومت نے اس کی مر مت نہیں کی متبادل پُل نہیں بنایا خبر میں یہ دو جملے مسلمانوں کی تاریخ پر گہرے طنز کی حیثیت رکھتے ہیں ہم کہتے ہیں مسلمانوں کا ماضی شاندار ہے، درخشان ہے ہمارے اسلاف کے کار نامے سنہرے لفظوں میں لکھنے کے قابل ہیں مراکش سے لیکر انڈ ونیشیا تک نظر دوڑائیں تاریخ کو کھنگالیں چار بڑی حقیقتیں سامنے آئینگی پہلی بات یہ ہے کہ اگر اسلامی ممالک سترھوں صدی سے بیسویں صدی تک 300 سال ولند یز ی، فرانسیسی، جرمن، برطانوی،امریکہ، طالوی اور پر تگیز ی قوموں کی غلامی میں نہ گرتے تو سڑک، پُل، ریل، موٹر، بجلی، تعلیم، ہسپتال اور دیگر سہولتوں سے اب تک محروم ہوتے دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی ملکوں میں زبان و ادب پر تحقیق کی بنیاد مغربی قوموں نے رکھی، قدرتی وسائل پر تحقیق مغر بی اقوام نے کی، آثار قدیمہ پر تحقیق مغربی اقوام نے کی سکول، کالج اور یونیورسٹی کی بنیاد مغر بی اقوام نے رکھی تیسری بات یہ ہے کہ جدید دور کے مقبول نظریات یعنی جمہوریت، انسانی حقوق، صنعتی مساوات، ماحولیاتی تحفظ وغیر ہ بھی مغربی اقوام نے متعارف کرائے چوتھی بات ذرا مشکل ہے مگر نظر آنے والی بات ہے اس کو جھٹلا یا نہیں جاسکتا چو دھویں صدی عیسوی سے سترھویں صدی عیسوی تک کی عمارات کا موازنہ کریں 1343ء میں یور پ کی پہلی یونیورسٹی ویانا (Viana(آسٹر یا میں بنی، دوسری یونیورسٹی 1376ء میں برلن (Berlin) جرمنی میں بنی تیسری یونیورسٹی 1384ء؁ میں ہائیڈل برگ (Hiedelberg) جرمن میں بنی یہ وہ دور تھا جب ہندوستان، ایران،ترکی،مراکش، تیونس اور انڈونیشیا میں قلعے اور مزارات تعمیر ہورہے تھے سترھویں صدی میں شاہ جہاں نے آگرہ میں تاج محل تعمیر کیا تو برطانیہ میں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کی تعمیرات کا چرچا تھا تاج محل سے مسلمانوں کو ایک آنہ پائی کا فائد ہ نہیں ہوا آکسفورڈ اور کیمبر ج سے انگریزوں نے دُنیا میں انقلاب برپا کر کے دکھا یا اگر شاہجہان کو پتہ ہوتا کہ تاج محل کے نام پر سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعمیر بھی ہو سکتی ہے تو یقینا وہ قلعہ تعمیر کرنے کے بجائے کوئی مفیدعمارت تعمیر کرتا آج ہم قلعہ اٹک،شاہی قلعہ لاہور، لال قلعہ دہلی اور تاج محل آگرہ پر کیوں کر فخر کر سکتے ہیں ان قلعوں میں کونسی چیز قابل فخر ہے؟ کونسی بات فخر کے قابل ہے ؟ تاریخ کے جھر وکوں سے گذر کر حالات حاضرہ کی طرف آئیں عربوں کی موجو ہ دولت فرانس، جرمنی، بر طانیہ، سپین، اٹلی اور امریکہ کے انجینئروں کی مرہوں منت ہے اگر مغربی اقوام سعودی عرب، قطر، دوبئی، شارجہ، کویت، ابو ظہبی، اردن، بحرین عراق اور شام میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت نہ کرتے، قدرتی وسائل کو صاف کرنے اور فروخت کے قابل بنا نے کے لئے کار خانے نہ لگاتے، اپنے جہازوں کے ذریعے یورپ اور امریکہ میں فروخت نہ کرتے تو عرب کبھی ترقی کا موجودہ دور اپنی آنکھوں نے نہ دیکھتے پاکستان اور افغانستان کے اندر نظر دوڑائیں انگریزوں نے ملاکنڈ میں جبن کا بجلی گھر بنا یا درگئی، طورخم اور بنوں تک ریلوے ٹریک بچھایا آج ہم بجلی کے بحران سے گذررہے ہیں آج ہم نے انگریزوں کے ریلوے ٹریک کو بر باد کر کے رکھ دیا ہے افغانستان کی حالت دیکھیں 2002 میں امریکی قبضے سے پہلے نہ سڑکیں تھیں،نہ پل تھے نہ سکول, کالج اور ہسپتال تھے سماجی ترقی کا نام و نشان نہیں تھا 50 سال بعد افغانستان کی تاریخ لکھی جائیگی تو سماجی ترقی میں امریکی قبضے کا ذکر اس طرح آئے گا جس طرح پاکستان اور ہند وستان کی تاریخ میں برطانوی غلامی کے دورمیں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا ذکر ہوتا ہے بلا شبہ انگریزوں نے وادی پشاور کے زرخیز علاقہ چارسد ہ میں سردریاب کا پُل اپنی فوج کے لئے بنا یا فوجی نقل و حرکت میں سہولت کے لئے بنا یا تاہم اس کا فائد ہ عوام ہی نے اُٹھا یا ہماری حکومتوں نے 70 سالوں میں انگریزوں کے بنائے ہوئے پُل کی مرمت بھی نہیں کی متبادل پُل بھی تعمیر نہیں کیا وادی پشاور میں انگریز وں کے دو بڑے دشمن تھے باچاخان اور حاجی صاحب ترنگزی دونوں نے انگریزوں کے بنائے پل اور انگریزوں کی بنائی ہوئی سڑکوں استعمال کیں انہی کے ریل میں سفر کرتے رہے سرد ریاب پُل کے ٹوٹنے سے انگر یز وں کی شاندار حکومت کی ایک اور یاد گار ختم ہوگئی ہے