دھڑکنوں کی زبان ۔۔”نا محسوس نعمتیں ” ۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

استاذ کلاس روم میں اقبال پر سبق پڑھا رہے تھے کلاس نویں کی تھی۔بات خوداری،خودی کی آگئی۔پھر آگے نکل کر شکر کی آگئی۔۔اطمنان قناعت کی آگئی۔فقر کی آگئی۔۔استاذ کو اقبال سے محبت تھی۔۔استاذ نے کہا بچو! دنیا میں غریبی بہت بڑاانعام ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بندہ غریبی کو تقدیر سمجھ کر تن بہ تقدیر نہ ہوجاۓ جدو جہد کو شعار بناۓ۔پھر استاذ نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا بچو! تم نے شاید ابھی تک پیسوں،جائیداد،بنک بیلنس،گاڑیوں اور عہدوں کو نعمت سمجھ رکھا ہے تمہارے پاس ان سے بھی قیمتی نعمتیں ہیں ہر ایک کے پاس ہیں۔۔۔بچے سراپا سوال بن گئے کیونکہ یہ گورنمنٹ سکولوں کے بچے تھے ان کے والدین ان نعمتوں سے محروم رہے ہیں۔۔استاذ نے کہاتم میں سے کوٸی کانا تو نہیں ہے بچوں نے چیخ کر کہا نہیں سر۔۔۔۔استاذ نے کہا بچوإ یہ آنکھیں بے بدل نعمتیں ہیں کسی آندھے سیان کی اہمیت پوچھو وہ کہے گا کہ مجھے کروڑوں روپے نہیں چاہیٸں بس آنکھیں چاہیٸں۔۔اب بچے سمجھ گئے تھے ایک ایک کرکے اللہ کی دی ہوئی بے بدل نعمتیں گننے لگے۔۔ہاتھ،پاؤں،بدن کے پورے اعضا، دل،عقل،سمجھ بوجھ۔۔۔خوبصورتی۔۔۔بچے تڑپ اٹھے سر اگر ہم گونگے ہوتے۔۔۔بہرے ہوتے۔۔۔ایک بچے نے نہایت درد سے کہا سر۔۔پاگل ہوتے ساروں نے سر پکڑ لیے۔۔پھر استاذ نے کہا بچو! ایک بہت بڑی نعمت بھول جاتے ہو۔بچوں نے کہا سر! وہ کیا ہے؟۔۔۔استاذ نے کہا۔۔ابھی چھٹی ہوئی تمہیں بہت بھوک لگی ہے۔۔دوڑ کر گھر کی طرف جا رہے ہو گھر کے قریب پہنچا۔۔دیکھا کہ ماں باپ آپس میں لڑ رہے ہیں تمہیں کچھ کھانے کو جی چاہے گا۔۔بچے چیختے ہیں نہیں سر۔۔۔۔۔دیکھا کہ ابو بیمار ہیں۔۔۔ماں کے سر میں درد ہے۔ بچے سمجھ گئے۔۔استاذ نے کہا بچو! یہ امن اور سکون کی دولت سب سے بڑی نعمت ہے۔رب نے قران میں قریش پر اپنی نعمتیں گنوا کر کہا کہ اس گھر کے مالک کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف میں امن بخشا۔۔۔یہ امن گھر میں ہو۔۔محلے میں ہو۔۔۔گاوں میں ہو۔۔پھر ملک میں ہو یہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔۔بچوإ ہم اللہ کی نعمتیں گن گن کر پورے نہیں کر سکتے۔۔یہ ملک،یہ آزادی یہ سب نعمتیں ہیں۔۔ان کو وہ لوگ محسوس کریں گے جن کا وطن آگ میں جل رہا ہے جن کے گلی کوچے چٹخ رہے ہیں جن کے بازاروں میں جان و مال محفوظ نہیں۔۔جن پر آگ برس رہی ہے مگر وہ قضاء کے انتظار میں ہیں۔جن کی سرحدیں محفوظ نہیں۔۔بچو! یہ سب نعمتیں ہیں ان کے ساتھ شکر کرنا اگر ایک نعمت سے محروم ہو جاو گے تو زندگی کی لذتیں ختم ہو جاٸیں گی۔جینے مرنے میں فرق ختم ہو جاۓ گا۔جی جی کر مرو گے۔زندگی بہت خوبصورت ہے جب یہ ان نعتوں سے بھرپور یے اگر نعمتوں سے محروم ہو گٸی تو یہ بہت بد صورت ہے۔۔شکر کرو۔۔۔عافیت کے ساتھ۔۔۔شکر کرو صحت کے ساتھ۔۔۔شکر کرو امن سکوں کے ساتھ۔۔۔شکر کرو کہ تم کچہری میں نہیں ہو۔۔۔ہسپتال میں نہیں ہو۔۔تھانے میں حوالات میں نہیں ہو۔۔مقروض مقہور نہیں ہو۔۔گھر میں کوئی دائمی بیمار نہیں ہے۔۔ٹنشن نہیں ہے۔۔۔کیا یہ نعمتیں کافی نہیں۔۔اگر کسی معذور کو دیکھو تو اپنے آپ کو اس کی جگہ محسوس کرو۔۔شکر کرو گے۔۔۔کسی کو مصیبت میں دیکھو تو اپنے اوپر مصیبت سمجھو۔۔۔۔ شکر کرو گے۔۔۔کسی کی مدد کرو تمہاری غیبی مدد کی جاۓ گی۔کسی کی پردہ پوشی کرو تمہارا پردہ رکھا جاۓ گا۔۔یہ ساری نعمتیں جو تمہیں میسر ہیں اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں۔۔۔ہاں بیٹا! تمہارا اچھا اخلاق نعمت ہے۔۔تمہارا سچا دین نعمت ہے۔۔۔۔تمہارے ماں باپ نعمت ہیں۔۔ان کی تابعداری اور خدمت نعمت ہے۔۔تمہارے اچھے رشتے ناطے نعمت ہیں۔۔تمہاری شرافت،لوگوں کا تمہارا احترام کرنا نعمت ہے۔۔تم پر بھرسہ کرنا نعمت ہے۔تمہاری نیک اولاد نعمت ہے۔تم اگر احساس کرو تو تم کو تمہاری زندگی نعمتوں سے بھری نظر أۓ گی۔۔اتنے میں گھنٹی کی أواز أتی ہے۔۔ استاذ مسکرا کر کہتا ہے بچوإ گھنٹی کی آواز بھی نعمت ہے۔۔بچے چیختے ہیں۔۔۔ نہیں سرإ اگر کوئی سر “زندگی “پڑھا رہا ہو تو ہمیں کسی گھنٹی کی آواز کا انتظار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔