دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔ہم منتظر ہیں۔۔

Print Friendly, PDF & Email

ہم سپنوں کے جزیروں میں درماندہ تڑپنے والے افسردہ لوگ پاکستانی عوام کہلاتے ہیں ہم منتظر ہیں ان خوابوں کی تعبیر کے جب ہم انگریزوں کے غلام تھے ہندووں کے دسترس میں تھے تو ہمارے بڑوں نے خواب دیکھنا شروع کیا۔خواب آزادی کا تھا بڑا سہانا خواب تھا ہم سب تن من دھن کی بازی لگا کر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں لگے۔۔ہم مخلص تھے کہ آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔لیکن اس خواب سیجڑے ہوۓجو دوسرے خواب تھے وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے ہم منتظر ہیں ہم 75 سالوں سے منتظر ہیں۔۔ہمارا خواب تھا اس پاک سر زمین پر ہماری اپنی حکومت ہوگی وہ بڑا ڈراونا خواب ثابت ہوا ہمارے آقا کوٸی اور بنے ہماری اپنی مرضی کہیں دفن ہوگئی۔ہم پر فورا کچھ فیگرز مسلط ہوۓ اور مسلط ہیں۔ہمارا قبلہ کہیں اور ہے۔ہم ڈر کے مارے زندہ ہیں۔جب ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم پیسے کے لیے اپنی ماں تک بیج دیں گے تب بھی ہم سہم کر بس سر جھکا لیتے ہیں جب ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم تمہیں پتھر کے زمانے میں پہنچادیں گے ہم لرزہ براندام ہوتے ہیں۔پالیسی ان کی چلتی ہے ہمارے بڑے ان کے دراقدس پہ نظریں جماۓ بیٹھے ہیں۔۔ہماری مرضی، ہماری آزادی دھری کی دھری رہ گئی ہے۔ہم اس خواب کی تعبیر کے منتظر ہیں کہ ہمارے دارالعدل عدل کی روشنی سے جھگ مگا اٹھیں۔ خواب کی تعبیر میں ہم فیل ہیں۔۔ہمارے ہاں صداقت، امانت،دیانت اور محبت کی ہوا چلے۔ ہم اس ہوا کے جھونکے کے منتظر ہیں۔۔ہمارے اداروں، ہمارے
ایوانوں،ہمارے بازاروں،ہماری گلی کوچوں سے محبت کی خوشبو آۓ۔ ہم اس خوشبو کے منتظر ہیں۔ہم منتظر ہیں کہ ہمارے رہنما اس ملک کی بے لوث خدمت کریں۔ہم منتظر ہیں کہ یہاں پر غاصب اور بد عنوان کے لیے کوٸی جگہ نہ ہو۔ہم منتظر ہیں کہ ہمارے نماٸندے ایک دوسرے کااحترام کریں۔ہم محبت اوراحترام کے دو بولوں کا منتظر ہیں جو کسی سٹیچ سے سناٸی دیں۔ہم منتظر ہیں اس پیار کے جو والدین بچوں سے، اساتذہ شاگردوں سے، آقا غلاموں سے، صاحب ماتحتوں سے کریں۔ہم اس ہمدردی کے منتظر ہیں جو چارہ دست تنگ دست سے،امیر غریب سے، خوش حال بد حال سے کرے۔ہم اس احترام کے منتظر ہیں جو اولاد اور والدیں کے درمیان ہوتا ہے۔معاشرے میں ہر کوٸی ایک دسرے کا کرے۔بوڑھے کیحصے میں آۓ۔معذور کا ہو عورت کا ہو۔ہمساۓ کا ہو۔مہمان کا ہو۔اجنبی کا ہو۔انسانیت کا ہو۔ہم منتظر ہیں کہ کوٸی کہہ دے کہ الحمد اللہ ہم قرضوں سے نجات پاگئے۔کوٸی اعلان کرے کہ انصاف اور حق ہر ایک کو اس کی دہلیز پہ ملے گا۔ہم منتظر ہیں کہ کوٸی اعلان کرے کہ ہمارا کوٸی کارخانہ کوٸی ادارہ خسارے پہ نہیں چل رہا۔ہم منتظر ہیں کہ بدعنوانی ناقابل سزاجرم ہو۔کسی کو کرپشن کرنے کی جرات نہ ہو۔ہم منتظر ہیں کہ ملک میں الیکشن ہوں نہایت سکوں اور اطمنان سے ہوں اور نتاٸج صاف شفاف ہوں تاکہ ہم دنیا کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔ہم منتظر ہیں کہ ہمارے ہاں ہر طرف خوشحالی و ترقی ہو۔ہماراانتظار ہمارا سرمایہ ہے ہم پژمردہ وافسردہ ہیں۔ہمارے بڑوں کواس کی فکرکیوں نہیں۔۔ہمارے انتظار کی کوٸی قیمت کیوں نہیں۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ صرف انتظار سے کہیں بھی کوٸی تبدیلی نہیں آنی کوٸی انقلاب نہیں آنا لیکن ان ناخداٶں کو پہلے یہ احساس دلانا کہ ہم منتظر ہیں ہمارا انتظارہ لاوہ نہ بن جاۓ۔ہم پھٹ نہ پڑیں۔مرد قلندر نے بڑے سوز سے کہا تھا۔۔۔۔۔ جس میں نہ انقلاب موت ہے وہ زندگی۔۔۔روح امم کی حیات کشمکش انقلاب۔۔۔۔
جب بڑوں کے دل میں عوام کا احترام نہ ہو تو وہ بڑے کہلانے مستحق نہیں بحیثیت قوم ہمیں اس دنیا میں جینا ہے اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہے ہم میں سے ہر ایک کچھ اچھے کا انتظار کر رہا ہے یہ اس کا خواب بھی ہے اور حق بھی۔۔۔ہمارے ہاں توقعات اور مایوسیوں کی نہ ختم ہونے والی جنگ جاری ہے۔آزماۓ ہوۓ آزماۓ جا چکے ہیں رویوں میں کسی تبدیلی کی امید نہیں۔ایسے میں انتظار روگ ہے گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔۔اللہ ہمیں ہر آفت سے محفوظ رکھے