داد بیداد۔۔تاریخ خود کو دہراتی ہے۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

 

یہ انگریزی کا مشہور مقولہ ہے کہ تاریخ خود کو دہر اتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قوموں پر ایک ہی وقت بار بار آتا ہے چاہے برا وقت ہو یا اچھا وقت ہو پا کستانی قوم کی 76سالہ تاریخ ہے اس تاریخ میں 3دہا ئیاں ڈراونے خواب کی طرح تھیں جبکہ 4دہا ئیاں اُمید اور آس والی تھیں ہماری تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے تو ڈراونے خواب واپس لا تی ہے اُمید اور آس نہیں لا تی بڑی خرا بیوں کے بعد پھر سے بر بادی کا دور واپس آئے تو قوم کے اندر ما یو سی پھیلتی ہے ما یو سی کے نتیجے میں پڑھے لکھے لو گ، ڈاکٹر، انجینئر اور مختلف پیشوں کے ما ہرین ملک چھوڑ جا تے ہیں صنعتکار اور سرمایہ دار اپنا سرما یہ ملک سے با ہر لے جا تے ہیں ملکی معیشت پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے فی کس آمدنی میں کمی آ جا تی ہے سفید پو ش طبقہ ختم ہو جا تا ہے غر بت میں اضا فہ ہو جا تا ہے اور ملک قرضوں تلے دب کر رہ جا تا ہے حا لیہ برسوں میں بنگلہ دیش کی قیا دت نے اپنی قوم کو ما یوسی سے نکا ل کر اُمید کی راہ پر ڈالنے کی اچھی مثال قائم کی ہے ہمارے پڑوس میں افغانستان کی قیا دت اس راہ پر گامزن ہے افغانی با ہر سے اپنا سرمایہ واپس لا رہے ہیں اور جو ہر قابل بیرون ملک سے بخو شی واپس آرہا ہے پا کستان کی سما جی، سیا سی اور معا شی سر گرمیوں پر تحقیق کرنے والے دانشور وں کا خیا ل تھا کہ پا کستان میں انتشار اور عدم استحکام کا عشرہ گذر گیا اب معا شی استحکام اور قومی یک جہتی کا عشرہ واپس آئے گا دانشور وں کے ایک طبقے کو اُمید ہے کہ ایسا ہی ہو گا لیکن زمینی حقائق، تجربات اور مشا ہدات اس کے بر عکس نظر آتے ہیں خد شہ یہ ہے کہ 1951، 1991اور 2011کے عشرے دوبارہ آنے والے ہیں جب سیا سی افراتفری اور معاشرتی انتشار نے ملک کو خا نہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا تھا 1951ء کی دہا ئی میں سیا ستدانوں کی با ہمی رنجش اور اندرونی اختلا فات نے اس حال تک پہنچا یا کہ 7سالوں میں 6بار نئے وزیر اعظم آئے، بیرون ملک پا کستان کے بارے میں طرح طرح کے لطیفے مشہور ہوئے پڑو سی ملک کے ایک اخبار نے سرخی جما ئی تھی کہ جتنی دیر میں ہمارا وزیر اعظم جو تے بدلتا ہے اتنی دیر میں پا کستانی اپنا وزیر اعظم بد ل دیتے ہیں تاریخ جب خود کو دہرانے پر آگئی تو 1988ء میں پھر 1951والا منظر سامنے آگیا جو گیارہ سال جا ری رہا، دانشوروں نے لکھا کہ تاریخ اگر خواہ مخواہ خود کو دہرا رہی تھی تو 1961کا عشرہ واپس لے آتی،1972کا عشرہ واپس لے آتی یا 1980کا عشرہ واپس لے آتی مگر جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا 1988میں وزیر اعظم ایک صو بے کا دورہ کرتی تھی تو صوبے کا وزیر اعلیٰ اس کا استقبال کر نے سے انکار کر تا تھا سیا ستدانوں کی با ہمی دشمنی کا خمیا زہ ملک اور قوم کو بھگتنا پڑا، 10سالوں میں 4بار نئی حکومتیں آئیں ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومت سے بری ثا بت ہوئی خدا خدا کرکے یہ وقت گیا 1999کے بعد ملک میں اُمید اور خو ش حالی کا دور شروع ہوا گویا اب کی بار تاریخ نے 1961کا عشرہ دہرایا، لو گوں کی جان میں جا ن آئی، معیشت بہتر ہوئی، ترقی کے میگا پرا جیکٹ شروع ہوئے مجمو عی قومی پیداوار میں اضا فہ ہوا، زرمبادلہ کے ذخا ئر قومی ضروریات سے بڑھ گئے، فی کس آمدنی میں اضا فہ دیکھنے میں آیا، سرمایہ کاروں نے ٹیلی کام سیکٹر سمیت کئی اہم شعبوں میں سرما یہ کاری کی، بے روز گاری میں کمی آئی اور غربت کا گراف نیچے گرا سٹاک ایکسچینچ پر ان اقدامات کے خو شگوار اثرات مر تب ہوئے لیکن 2008ء کے بعد پھر تاریخ نے 1988ء والا عشرہ دہرا یا، سیا سی انتشار آگئی معا شی حا لات دگر گوں ہوئے غیر ملکی قرضوں میں اضا فہ ہوا، اب تاریخ خود کو پھر نئے سرے سے دہرا رہی ہے خدا کرے کہ ترقی اور خوش حا لی کا کوئی عشرہ واپس لا ئے انتشار، دشمنی، تبا ہی اور بر بادی کا عشرہ واپس نہ لا ئے سنا ہے تاریخ خو د کو دہر اتی ہے۔