دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔”ہماری بے چینیاں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

یہ یقینا ہماری ناشکریاں اور سخت کوتاہیاں ہوں گی کہ ہم ہر لحاظ سے ایک عظیم ملک میں رہتے ہوۓ بھی بے چین ہیں ۔ہر کوٸی پریشان ہے، معترض ہے، مایوس ہے ۔شہری مزدور بے چین ہے۔۔ طالب علم مایوس ہے۔۔۔ انتظامیہ بے سکون ہے۔۔۔ مقنیہ ٹامک ٹوٸیاں کھارہا ہے۔۔۔ والدین کو اپنے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔۔۔ عہدے دار کو اپنے عہدے کی سلامتی پر یقین نہیں ۔۔۔ایسا کیوں ہے ؟۔۔ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے ۔۔۔۔لازم ہے شکر کی کمی ہے ۔مخلص قیادت کی کمی ہے۔۔۔ امانت دار ذمہ دار کی کمی ہے۔۔۔ نیتوں میں فتور ہے۔۔۔ اس مٹی سے محبت کا فقدان ہے ۔۔۔قربانی کا جذبہ کوٸی نہیں ۔یہ المیہ ہے ۔۔آۓ روز بے چینیاں بڑھ رہی ہیں استاد کلاس روم چھوڑ کر سڑکوں میں ہے ۔۔۔صحافی کی جیب خالی ہے۔ لہذا قلم چھوڑکر گھر جا بیٹھا ہے۔۔ مزدور کڑھ رہا ہے ۔۔۔۔طالب علم کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہے ۔پنجاب کے وزیر اعلی کی تقریر سننے کو ملتی ہے کہتا ہے کہ ایک ایسے تعلیمی ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا جس نے قوم کو بڑے بڑے ہیروز دیۓ لیکن اب وہاں کے اساتذہ ہاتھوں میں ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کوٸ پڑھاٸی نہیں ہو رہی اساتذہ سرجھکا کے سمارٹ فون پہ لگے ہوۓ ہیں ۔یہ سکول ہی بند کر دیۓ جاٸیں ۔ان کا غصہ پنشن اصلاحات اور سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے سکریٹری تعلیم جو بڑے فعال ثابت ہوۓ ہیں انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ پیشہ ور اساتذہ اپنے اداروں کی صفاٸی ستھراٸی کرتے ہوۓ عار محسوس نہیں کرتے آوکہ اپنے اداروں کی خود صفاٸی کریں ۔۔اساتذہ اب بھی ان پہ معترض ہیں کہ انہوں نے اساتذہ کے ہاتھ میں چنور تھما دیا۔۔۔ بات اخلاص کی تھی لیکن ہم نے توہین سمجھا ۔آج حکومت کی طرف سے وثوق سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ پنشن قومی خزانے پر بوجھ ہے لیکن اشرافیہ مراعات اور پنشن لیتا رہے یہ بوجھ نہیں بس کہیں استاذ ،کلرک، پٹھواری ،کلاس فور، لاٸن مین وغیرہ کا پنشن قومی خزانے پر بوجھ ہے ۔اشرافیہ خواہ اس کا سکیل سولہ ہی کیوں نہ ہو اس کی لاکھوں کی گاڑی مفت بجلی مفت پٹرول ، سرکاری گھر اور پنشن قومی خزانے پر بوجھ نہیں محکمہ تعلیم کے گریٹ اکیس کے آفیسر کی تنخواہ قومی خزانے پر بوجھ ہے سنیٹر جو پانچ سال کے لیے سینٹ میں آ کر عیاشیاں کرے اس کی کارکردگی سے قوم کو کوٸی فاٸدہ نہ ہو اس کا ساری عمرکی پنشن قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہے محکمہ صحت کا کلاس فور جس کو چند ہزار کی پنشن ملے قومی خزانے پر بوجھ ہے ۔سوال یہ ہے کہ قومی خزانہ ہے کیا یہ کس لیے یے ۔سڑک بنانے پہ قومی خزانے پہ بوجھ ہوتاہے بجلی گھر بنانے سے قومی خزانے پر بوجھ ہوتا ہے ملازمین کو تنخواہ دینے سے ملازمیں پر بوجھ ہوتا ہے پنشن دینے سے قومی خزانے پر بوجھ ہوتا ہے۔سبسیڈی اور کرایوں میں چھوٹ دینے سے قومی خزانے پر بوجھ ہوتا ہے ۔۔ اب یہ خزانہ ہے کس لیے ۔۔ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کے ٹیکس کی رقم ان پر خرچ ہوتا ہے ان کو بنیادی سہولیات میسر ہیں ہمارے ہاں یہ ٹیکس کی رقم کہاں جاتی ہے ۔کیا یہ خزانے میں نہیں جاتی ۔۔۔کیا ہمارے پاس ریوینیو کے کوٸی زراٸع نہیں ۔۔ہمارے سکولوں میں چند ہزار کا پرائیویٹ فنڈ ہوتا تھا ۔۔اس پر دو چار ہزار کا منافع اتا
تھا اس سال حکم آیا یہ ریوینو ہے حکومت کے خزانے میں جمع کرو ہم نے بچوں کے فنڈ کا منافع جو میرے سکول کا صرف چھ ہزار بنا اس کو حکومت کے ” خزانے “ میں جمع کیا ۔۔مسلم امہ کے دور زرین میں ہم نے سنا تھا کہ قومی خزانہ قوم کی امانت ہوتی ہے وہ شاید کوٸی اور طرح کا خزانہ تھا یا خزانے کے امین کوٸی ماوراٸی مخلوق تھے ۔۔ہمارے ہاں کی یہ ساری بے چینیاں شاید ہماری نا شکریاں ہیں ۔۔ہم دنیا کی دوسری قوموں اور ملکوں کی حالت زار کا اندازہ کرتے ہیں تو کچھ کہتے ہوۓ سہم جاتے ہیں ۔ہمارے سامنے فلسطین ہے چیچنیا بوزنیا ہے عراقی شام ہے کشمیر ہے افعانستان تھا قومیں کس عذاب سے گزریں اور گزر رہی ہیں ۔یا اللہ ہمارے اندر کی بے چینیاں کس کی کارستانیاں ہیں ۔ہم کشکول اٹھاتے ہیں ہم سر جھکاتے ہیں ہم میں مایوسیاں پھیلتی ہیں ۔ہم کرپشن کرکے پھر یوم بد عنوانی ” کرپشن ڈے “ مناتے ہیں۔پروردگار کیا ملک ایسا ہوتا ہے کیا لیڈرشپ ایسی ہوتی ہے پروردگار تو نے قران عظیم الشان میں قریشی پر اپنے احسانات میں امن اور پھر خوشحالی کا ذکر فرمایا ہے ۔۔ہمیں بھی دونوں کی ضروت ہے۔۔ہمیں امن اور خوشحالی عطا فرما۔۔