دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”چترال جنت ارضی‘

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”چترال جنت ارضی“
دنیا میں انسان کی زندگی کی پہلی ترجیح امن ہے۔اس عارضی دنیا میں ہر انسان چند دن کے لیے آیا ہے اگر یہ چند ساعتیں خوشی خوشی گزار کے واپس جا? تو وہ کامیاب ہے۔دنیا میں ”کامیابی“ کی تعریف بھی یوں کی گ? ہے کہ انسان کو ”خوشی“ حاصل ہو سکون، اطمنان اور قناعت کی دولت میسر ہو۔دنیا کی ساری تہذیبیں اور سارے مذاہب امن کا درس دیتے ہیں لیکن ان کا پیروکار اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں یہ الگ بات ہے۔دنیا کا لٹریچر شاعری اوراصناف سب امن کے پیغام سے پر ہیں خواہ ان کا عملی نمونہ ہوتا ہے یا نہیں۔جہان انسان کی فطرت میں بغاوت،سرکشی، ظلم اور درندگی ہے وہاں اس کی فطرت میں رخم دلی،امن اور انصاف بھی ہے یہ قدر مشترک ہیں اس لیے ایک بچہ سب کو سانجی ہوتا ہے ایک بوڑھا، ایک عورت سب کے نزدیک قابل احترام ہے۔دنیا انسانوں کی بستی ہے اگر انسان میں غیر انسانی اوصاف پروان چھڑیں تو ایسے لوگوں کے لیے قران نے کہا۔۔ان کے پاس دل ہیں (حق) سوچتے نہیں۔ان کے پاس آنکھیں ہیں (حق)دیکھتے نہیں۔ان کے پاس کان ہیں (حق)سنتے نہیں۔۔وہ حیوان ہیں بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر۔۔۔۔ تب ”انسانیت“ انسان اور حیوان میں فرق کی کسوٹھی ہو?ی۔۔
ملک خداداد میں مختلف علاقے، تہذیبیں، معاشرے اور طبقے موجود ہیں ان کے اپنے طور طریقے اور طرز زندگیاں ہیں۔لیکن ملک خداداد کے انتہا? شمال میں چترال نام کا جو علاقہ ہے یہ ہر لحاظ سے نرالا ہے بے شک یہ پسماندہ ہے دشوار گزار ہے زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے لیکن اس کے پہاڑ، دریا، جنگل، بیابان،کھیت، کھلیان اور ندی نالوں پر امن برستا ہے۔یہاں کے باشندوں کو موت کا خوف بھی نہیں ستاتا۔محبت، ہمدردی، انس ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔یہ رشتے ناطوں کے علاوہ ہمدردیاں ایسی جتاتے ہیں کہ بندہ دھنگ رہ جا? ایثار کا جذبہ،قربانی کا جذبہ،اخوت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے۔بے شک ایک معاشرے میں رہتے ہو? اختلافات ہوتے ہیں لڑا? جھگڑے بھی ہوتے ہیں لیکن ابھی لڑائی ہو?ی ابھی ایک دوسرے کے گلے لگ کر شیرو شکر ہوگ?۔یہ شرافت انسانی فطرت کا ایک جوہر ہے جو چھترالیوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو?ی ہے۔عدالتوں میں کیسیں لڑی جاتی ہیں لیکن پیشی کے بعد حریف اکھٹے کسی ہوٹل میں چا? پی رہے ہوتے ہیں۔مخالفت میں جان کیلالے نہیں پڑتے۔۔۔ دشمنیاں پروان نہیں چھڑتیں۔۔۔ ایک دوسرے کا احترام لازم ہے۔چترالی گھر، چترال کا معاشرہ ہر قسم کی فساد سے پاک ہے۔۔بھیک منگا نہیں ملے گا۔۔۔ چور اچکے نہیں ملیں گے۔۔۔ دھندھا غنڈاگردی نہیں ملے گی الا ماشا اللہ اگر کہیں مثال ملے بھی تو معمولی نوغیت کی ہوگی۔کہیں حبس بے جا، کہیں عقوبت خانہ،کہیں اظہار پر پابندی، کہیں غلامی کا تصور نہیں۔۔۔ بے جاشرافت کی وجہ سے کو? یہ سمجھے تو یہ اس کی نا اہلی ہے لیکن ایسا نہیں یہ ان کی فطرت ہے ورنہ ان کی بہادری کی مثالیں جابجا موجود ہیں۔یہ صابر و شاکر اور پر امن لوگ چترالی کہلاتے ہیں۔گا?ں میں گھر کے سامان باہر بکھرے پڑے ہونگے کہیں چوری کی وارداد نہیں ہوگی۔باہر دکانیں مقفل نہیں ہونگی کو? اندیشہ نہیں ہوگا۔موٹر سا?کلیں اور گاڑیاں روڈوں پر کھڑی ہونگی محفوظ ہونگی۔بچے باہر کھیل رہے ہونگے ان کے لیے کو? پریشانی نہیں ہوگی۔۔سب کی عزت محفوظ۔۔۔سب کی جان و مال محفوظ۔۔۔سب کی ننگ و ناموس محفوظ۔۔۔۔۔یہ چترال ہے اور یہ چترال کاتعارف ہے۔رشتہ داروں کا اپنا مقام۔۔۔بڑوں کا اپنا مقام۔۔۔۔ چھوٹوں کا اپنا مقام۔۔اگرچہ کچھ رشتے نبھانے میں کوتاہیاں ہوتی ہیں تو اس پر بڑا اعتراض ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان رشتوں اور ان کے حقوق سے انکار کی جرات کسی کو نہیں۔چھوٹی موٹی شرارتیں ہوبھی جا?یں تو بھی ان کے سد باب کے لیے کردار موجود ہوتے ہیں یہی ”چترالیت“ ہے چترال میں کچھ فطری ٹنشن ہیں مثلا خود کوشی وغیرہ یہ بھی اس شرافت کا شاخسانہ ہے کہ بندہ کسی ڈسپیرٹی کو برداشت نہیں کرسکتا توقعات اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ بندہ اگر کسی محرومی کا شکار ہوجا? تو ٹوٹ جاتا ہے۔چترال جنت ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت کسی چترالی کو دوسرے چترالی سے کسی قسم کا اندیشہ نہیں البتہ محبت اور احترام کی توقع ضرور ہے۔چترالیوں کا فرض ہے کہ امن کی اس اکیڈیمی کا احترام کیا جا? اور دنیا کو اپنی بے مثال تہذیب سے روشناس کرایا جا?۔۔چترال کے بیٹے اس کی ترقی کی کوشش کر رہے ہیں اس کی تعمیر میں لگے ہو? ہیں۔ہر محکمے میں چترال کے بیٹے اور بیٹیاں خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن لازم ہے یہ کہ وہ مثالی چترالی رہیں۔۔اپنی آنکھوں میں موجود شرافت کی اس چمک کی حفاظت کریں جو ”چترالیت“ کہلاتی ہے