”میرے بہت ہی پیارے ابّو، قاری ذاکر اللہ مرحوم کے نام ایک تحریر“۔۔۔۔۔ تحریر۔۔۔ مولانا عطاؤ اللہ آف بکرآباد چترال

Print Friendly, PDF & Email

تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے۔ دن رات ہفتہ مہینہ بدلتے رہتے ہیں۔ ہر ایک کے بعد ایک موسم پھر لوٹ آتے ہیں۔ سردی گرمی کوئی موسم بھی بے وفائی نہیں کرتا۔ سب موسم اپنے وقت پر آتے ہیں۔ مارچ جولائی اورپھر دسمبر بھی واپس آجائے گا۔ پر میرے ابو….! تم ایسے گئے اور ایسی جگہ چلے گئے، جہاں سے واپس ممکن ہی نہیں اور نہ واپسی کی کوئی امید ہے۔ ابوّ میری جان….! میں تمھیں بے وفا نہیں کہہ رہا اور نہ ہی میں تمھیں بے مروت کہہ سکتا ہوں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم کیسے تھے، تم ایسے ہر گز ہر گز نہیں تھے کہ مجھے اور اپنی فیملی کو چھوڑ کر چلے جاؤ گے۔ مجھے ان دنوں کی یاد ضرور آتا ہے جب ہم سب اکٹھے تھے۔ جب جانے والا چلا جاتا ہے تو یہ بات اور یہ احساس زیادہ تکلیف اور دکھ دیتا ہے کہ وہ ہمیشہ کیلئے چلا گیا ہے اور اب کبھی بھی نہیں آئے گا۔ کوئی امید ہی نہیں کہ اُسے دنیا میں دوبارہ دیکھ سکیں گے، دوبارہ اکٹھے رہ سکیں گے۔ دوسرے جہاں کے انتظار میں جئے جاتے ہیں کہ شاید وہاں اُس سے ملاقات ہو جائے اور دوسرا جہاں وہ بھی تو ان دیکھا ہے۔ وہاں نہ جانے اللہ تعالیٰ کے کیا نظام ہوں گے، اللہ کی باتیں اور اللہ کے نظام وہ خود ہی جانتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے بہت بے بس ہیں۔ ہم اپنے نصیب اور قسمت کے آگے بے بس ہیں۔ جب آزمائش دکھ اور جدائی مقدر میں ہوتی ہے۔ ہم اُسے سہنے اور برداشت کرنے کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں۔ پیسہ جائے واپس آسکتا ہے، صحت واپس آسکتی ہے، ہر چیز واپس آجاتی ہے۔
ابوّ……! جب میں ریت سیمنٹ اور اینٹوں بھرے گھروں کو دیکھتا ہوں، اپنے گھر کو دیکھتا ہوں تو یہی سوچتا رہتا ہوں کہ یہ چیزیں بھی کتنی پائیدار ہیں، ویسے کہ ویسے کھڑی ہی۔ ابّو….! گھر میں جو بھی پرانی چیزیں ہیں فرنیچر ہے برتن ہے بستر ہے درخت اور پودے ہیں سب کو دیکھ کر جُڑ جاتی ہوں کہ یہ کتنے عرصے سے ہیں، انھیں کچھ نہ ہوا۔ اور میرا سب سے قیمتی سرمایہ چلا گیا۔ میرے ابوّ….! اتنی چھوٹی عمر میں چلا گیا اور یہ سب بے کار چیزیں، ٹکے ٹکے کی چیزیں ویسے کے ویسے پڑی ہوئی ہیں۔ کاش جانے والے کے ساتھ یادیں بھی چلی جاتیں تو شاید اتنا دکھ نہ ہوتا۔ لیکن یادیں بھی تو کسی بڑے خزانے سے کم نہیں ہیں۔ اگر یہ بھی نہ ہوں تو پھر جانے والے کی کوئی نشانی ہی نہ رہے۔ کوئی بھی حادثہ ہو، دو تین دن سب اس کی ہی باتیں کرتے رہتے ہیں اور پھر ہفتے بعد سب ختم، دکھ اور تکلیف تو فیملی کا ہی ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ زندگی چھوٹی ہے۔ پر ابوّ….! جن کے ساتھ ایسے حادثے ہوتے ہیں اُن کیلئے وہی زندگی صدیوں پر محیط ہوجاتی ہے۔ خوشی کے دن لمحے لگتے ہیں اور دکھ کے پل صدی محسوس ہوتے ہیں۔ ابوّ…..! میں کبھی کبھی چیخ چیخ کر رونا چاہتا ہوں۔ ابھی اُس دن کا سوچنے سے ڈر لگتا ہے۔ وہ دن جس کے بعد زندگی کے معنی ہی بدل گئے۔ جب خبر سُنی اور پھر زمین پر گر کر کتنی ڈھیروں دعائیں کیں کہ یہ خبر جھوٹ ہو۔ اللہ کو کتنے واسطے دئے، کتنی منتیں کی، جو کچھ کر سکتی تھی کیا۔ یہ بات یقینا سچ ہے کہ جو آتا ہے وہ جاتا ہے۔ ابوّ…..! ایک مہینے تمھارے بغیر گزر گئے تو سوچتا تھا کبھی یہ ختم بھی ہو ں گے، اللہ کا شکر ہے جیسے تیسے کرکے گزر گئے۔ ایک ہفتہ اگر ابوّ کا فون یا خبر نہ آئے تو اولاد کتنی بے قرار ہو جاتی ہے۔ اور میں اور میرے جیسے کتنے اولاد سالوں کے سال اپنے ابوّ کے بغیر، اس کی کسی خبر کے بغیر کتنی اذیت کی زندگی گزارتے ہیں۔
ابوّ…..! سال ختم ہوتا ہے تو صرف اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ چلو زندگی کے اوراق میں سے ایک اور ورقہ ختم ہوا۔ ابوّ……! لوگ تمھیں یاد کرکے میرے دل کو بہلاتے رہتے ہیں، نہ لوگوں کی سمجھ میں کچھ آرہا ہے اور نہ میری سمجھ میں کچھ آرہا ہے۔ لیکن میں کیاکروں میرے درد کی کسک تو کسی طور کم نہیں ہوتی۔
ابوّ…..! آج کل تمھارے گھر پر مقبرہ بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ تمھارے دوست احباب بھی سارے ٹوٹ چکے ہیں، سب کو تمھاری یاد ستا رہی ہے۔ جب ہمارا یہ گھر بن رہا تھا تو تم نے بہت کام کیا تھا۔ میرے ابوّ…..! میں تمھارے کاموں کو تمھاری محنت کو کبھی نہیں بھلا سکتی۔ کبھی سوچا بھی نہ تھاکہ تم اس گھر میں نہیں ہوں گے اور ہمیں تمھارے بغیر اس گھر میں رہنا پڑے گا اور تمھارا گھر قبرستان میں بنے گا۔ یہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
شہادت یقینا بہت بڑی بات ہے۔ خو ش نصیبی کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ابو کو عام موت کے بجائے شہادت کی موت دی۔ ابوّ……! اگر تم عام موت سے چلے جاتے تو بھی میں کیا کر سکتا تھا۔ میں اللہ کا بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے تمھیں عزت سے وقار سے اور شہادت کی موت دے کر اپنے پاس بُلالیا۔
ابوّ……! اللہ تمھیں اور تمھارے جیسے اور والدین کو اپنے پاس ہمیشہ زیادہ زیادہ خوش رکھے اور جو خوشیاں تم سب نے دنیا میں نہیں دیکھیں، وہ تمھیں سب کچھ جنت میں عطا کرے۔ ابوّ…………..! اس دعا کے ساتھ اجازت چاہتاہوں۔ والسلام
اللہ حافظ۔۔۔۔ فقط۔۔۔۔ تمھارا بیٹا۔۔۔ عطاؤ اللہ