”اف یہ قیامت کی گھڑیاں“۔۔تحریر ۔۔اقبال مراد ٹھیکہ دار

Print Friendly, PDF & Email

چترال شہر میں گرمی ستانے لگی تو آبائی گاؤں جانے کا پروگرام بن گیا۔۔جنم بھومی کی یاد ستا رہی تھی۔۔دل خوش تھا۔۔ جذبے جوان تھے۔۔بچے بہت خوش تھے۔۔ایک مسئلہ تھا کہ اکلوتے بیٹے محسن اقبال کے امتحانات تھے۔ وہ ساتھ نہیں آسکتا تھا۔۔اس کے نہ ہونے سے گھرانہ نامکمل تھا۔۔خوشیاں ادھوری تھیں سفر سقر تھا۔۔اس کی موجودگی کی خوشبو نہ ہونے سے دم گھٹتا تھا۔۔آنکھوں کی ٹھنڈک آنکھوں کے سامنے نہ ہو تو نظارے اپنی خوبصورتیاں کھو د تے ہیں۔۔محسن ایک حسین نظارہ تھا۔۔ایک بہار۔۔ایک شوق نظارگی۔۔ایک آرزو۔۔ایک خواب۔۔ایک انجمن۔۔اس کے ہونے سے لگتا تھا کہ سب موجود ہیں اس کے نہ ہونے سے لگتا کہ کوئی نہیں۔۔ ہاں محسن کے امتحانات تھے اس وجہ سے وہ ہمارے ساتھ نہ آسکے۔۔۔اس کی ماں نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک۔۔اس کی بہنوں نے نظاروں کی رونق اور میں اپنی زندگی پیچھے چھوڑ گیا۔۔آبائی گاؤں میں زندگی بہت خوبصورت تھی۔۔یخ ہوائیں،،تازہ خوراک،خوبصورت نظارے،سیدھی سادھی زندگی،،احترام محبتیں،ہنسی خوشیاں۔۔بھائی بھابی بھتیجیاں۔۔بچے۔۔ننھیال دوھیال۔بچپن کی یادیں باتیں۔۔آخر گاؤں میں کیا نہیں تھا۔۔ہاں محسن ساتھ نہیں تھا۔۔ہاں کچھ نہیں تھا۔۔شام کو دسترخوان میں سب کچھ ہوتا۔۔صبح ناشتے میں سب کچھ ہوتے۔۔لیکن کھانے کو جی نہیں چاہتا۔۔گاؤں کی سیر میں جنت کے نظارے ہوتے۔دیکھنے کو دل نہیں کرتا۔۔بہت پیار اور محبت کی باتیں ہوتیں مگر سنائی نہیں دیتیں۔۔پتہ نہیں یہ سب کچھ پیکی پیکی کیوں تھی۔۔آخر یہ سب خوشیاں کس سے وابستہ تھیں۔۔ہاں محسن اقبال نہیں تھا۔۔
چمن تم سے عبارت ہے بہاریں تم سے زندہ ہیں
تمہارے سامنے پھولوں سے مرجھایا نہیں جاتا
محسن اقبال میرا اکلوتا بیٹا تھا۔۔میرے گھر کی رونق اور میری زندگی کی خوشبو تھا۔۔ہر ایک کی اولاد اس کی آنکھوں کا تارہ ہوتا ہے۔۔مجھے بھی میرے محسن بہت پیارا لگتا تھا۔۔اس وقت اور اس پر فخر ہونے لگتا جب لوگ میرے سامنے اس کی تعریفیں کرتے۔۔اس کو رب نے صلاحیتوں سے نوازا تھا۔۔اس کا وجود پیار میں ڈوبا ہوا تھا۔۔وہ چھوٹوں بڑوں سے ٹوٹ کر پیار کرتا۔۔اس نے سب کو محبت سے جیت لیا تھا۔۔اس کا بچپن ننھیال میں گزرا،اسلامیہ ماڈل سکول رائین میں مڈل تک تعلیم حاصل کی۔اور پھرآرمی سکول چترال میں نویں جماعت میں داخلہ لیا۔۔وہ کمپیوٹر کا ماہر ہوگیا تھا۔۔اس کو آئی ٹی سے بہت دلچسپی تھی۔۔فٹبال کا بہترین کھلاڑی تھا۔۔چودہ سال سے کم عمر کھیلاڑیوں میں ٹرائیل کے دوران بہترین کھیلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔۔ اس کی سلیکشن ہوئی۔۔اس کے دماغ میں کسی کام کے نہ ہونے کا تصور نہ تھا۔۔وہ بلا کا ہردل عزیز تھا۔۔وہ اپنی کلاس میں ایک نمایان طالب علم تھا۔۔اپنے اساتذہ کا پسندیدہ تھا۔۔اس کی سرشت میں تابعداری تھی۔۔اگر کسی معمولی کام کے نہ کرنے کا اس کو کہا جاتا تو اس سے توبہ کرتا۔۔وہ تیز طرار تھا۔۔ سچ بولتا اس کی معمولی شرارت کی بھی کبھی شکایت نہیں آئی۔۔اس کی نرگسی آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی۔۔اس کا لہجہ دھیما اور خوبصورت تھا۔۔اس نے کبھی کسی کو ناراض نہیں کیا۔۔چھ جولائی کی دوپہر تھی۔۔سکول سے آکر کھانا کھایا اور فورا اپنی کزنز کے ساتھ تالاب میں تیرنے کے لئے گئے۔۔تالاب میں چھالانگ لگایا اور ڈوب گئے بس اتنی سے بات تھی۔۔اس کی موت لکھی تھی ورنہ تو میرے تین بھتیجے ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش میں سب ڈوب گئے تھے۔۔میں اس تحریر کی وساطت سے ان دو شیر دل جوانوں،ان کے والدین اور ان کے پورے خاندان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے میرے بھتیجوں کو بچایا۔۔شوت جغور کے نور ہدایت کے فرزند سمیع الحق نے جان پر کھیل کران ڈوبے ہوؤں کو بچایا۔۔اور شوت جغور کے حیدر علی کے فرزند رشید حیدر جس نے گہرے تالاب میں کئی بار غوطہ لگا کر میرے بیٹے کو پانی سے نکالا۔۔مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔۔پھول مرجھا چکا تھا۔۔میں تورکھو کے گاؤں کھوت میں تھا تو مجھے اطلاع دی گئی کہ میرا بھتیجا بیمار ہے۔۔میرے خاندان والے سب ساتھ تھے۔۔ہم رات نوبجے گھر پہنچے۔۔لیکن منظرکچھ اور تھا۔۔کالی رات مذید کالی ہوگئی تھی۔۔محسن چارپائی پہ لیٹا ہو اتھا۔۔نرگسی اکھیاں بند تھیں۔لپ خاموش تھے۔۔چہرہ زرد تھا۔۔ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر تھی۔۔چھوٹا سا پیغام تھا”ابو تم لوگ کہاں گئے تھے۔۔۔میں آپ سے ملے بے غیرجارہا ہوں۔۔تم لوگ گاؤں گئے تھے میں خدا کے پا س جا رہا ہوں۔۔ابو خدا کا حکم ہے بلاوہ آگیا۔۔ابو آمی سے کہنا کہ اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرے اللہ بہت آجر دے گا۔۔“ میں محسن کی چارپائی کے سر ہانے بیٹھے اللہ کے حکم پہ صبر کر رہا تھا۔۔میرے رب کا حکم ہے میرا سر تسلیم خم ہے۔۔ اولاد کی نعمت عظیم ہوتی ہے اولاد کی محبت شرین ہوتی ہے اور اولاد کی جدائی ناقابل برداشت سانحہ ہوتا ہے۔۔ایسا سانحہ جو نہ بھلایا جا سکتا ہے اور نہ انسان اس کو بھلانا چاہتا ہے۔۔۔
ایک یاد ہے جو دامن دل چھوڑتی نہیں
ایک پیڑ ہے جو لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
محسن کے غم میں سب میرے ساتھ شریک ہوئے۔۔میں فرداً فرداً سب کا شکریہ ادا کرکے شاید پورا نہیں کر سکتا اس لئے اس تحریر کے ذریعے ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جو خود تشریف لا کے یا فون،ایس ایم ایس کے ذریعے میرے غم میں شریک ہوئے۔۔خصوصاً آرمی پبلک سکول کے وہ طلبا ء جو میرے بچے کے ساتھی تھے۔۔کمانڈانٹ چترال سکاؤٹ کرنل نظام الدین شاہ صاحب۔پرنسپل آرمی پبلک سکول۔۔ایم این اے،ضلع ناظم،تحصیل ناظم،کونسلر،سیاسی عمائیدیں،میرے بچے کے اساتذہ کرام۔پروفیسرز صاحباں،صحافی برادری جو میرے غم میں میرے ساتھ شریک ہوئے۔۔میں اس مرحلے میں سب کے لئے دعاگو ہوں کہ اللہ پاک ان سب کو اس کا اجر دے۔۔میں اس موقعے پر نہایت افسوس سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ایم پی اے سردار حسین صاحب جس کے ساتھ میری سیاسی وابستگی اور دوستی ہے میرے غم میں شریک نہیں ہوئے۔۔یہ شکوہ تا حیات رہے گا۔۔مہتر چترال ہز ہائینس جناب فتح الملک ناصرصاحب خود میرے غم بانٹنے تشریف لائے۔میں ممنون احسان ہوں۔۔زندگی ایک دوسرے کی غمی خوشی میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کا نام ہے۔۔ایک احساس دلانے کا نام ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں یہی انسانیت کی معراج ہے۔۔ ایک غمزدہ باپ