خیبر پختونخوا کابینہ کا ایک اجلاس آج وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی زیر صدارت کیبنٹ روم سول سیکرٹریٹ پشاور میں منعقد ہوااور اہم فیصلے کئے گئے۔اجلاس کے ایجنڈے مندرجہ ذیل ہیں۔ تفصیلی ایجنڈے کیا کیا ہے دیکھئے تفصیلی رپورٹ میں

Print Friendly, PDF & Email

پشاور (نمائندہ چترال میل)خیبر پختونخوا کابینہ کا ایک اجلاس آج وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی زیر صدارت کیبنٹ روم سول سیکرٹریٹ پشاور میں منعقد ہوااور اہم فیصلے کئے گئے۔اجلاس کے ایجنڈے مندرجہ ذیل ہیں۔1۔موٹر وہیکل آرڈیننس1965ء میں ترامیم کی منظوری:اضافی ایجنڈے۔گاڑیوں کی خریداری پرعائد پابندی نرم کرنے کا فیصلہ:2۔خیبر پختونخوا وائلڈ لائف اینڈ بائیوڈائی ورسٹی(پروٹیکشن،پریزرویشن،کنزرویشن اور منیجمنٹ ایکٹ2015ء میں ترامیم:3۔ خیبر پختونخوا پرائیویٹ سکولز ریگولٹری اتھارٹی بل 2016ء4۔پبلک سروس کمیشن کے ملازمین کی موجودہ20فیصد الاؤنس میں اضافے کے بارے میں وزیراعلیٰ کو سمری:5۔وفاقی پبلک سروس کمیشن میں علاقائی اور اکلیتی کوٹہ کی اسامیوں کی تقرری:6۔پبلک لائبریری ایبٹ آباد کو مولانا محمد اسحاق لائبریری ایبٹ آباد کے نام سے منسوب کرنا۔1۔موٹر وہیکل آرڈیننس1965ء میں ترامیم کی منظوری:٭محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے موٹر وہیکل آرڈیننس1965ء میں بعض ترامیم کا ڈرافٹ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا جس میں صوبائی کابینہ نے درج ذیل ترامیم کی اصولی منظوری دیدی۔۱۔موٹر وہیکل آرڈیننس1965ء کے سیکشن۔39(1)میں ترامیم کی گئی ہے جس کے مطابق اب ٹرانسپورٹ وہیکل کے لفظ کو موٹر وہیکل میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب تمام موٹر وہیکل پر لازمی ہے کہ وہ فٹنس سرٹیفیکیٹ حاصل کریں جبکہ پرائیویٹ وہیکلز بھی موٹر وہیکل یا کسی بھی مستند آٹو موبائل ورکشاپس سے فٹنس سرٹیفیکیٹ حاصل کریں گے۔ ۲۔موٹر وہیکل آرڈیننس1965ء کے سیکشن49میں ترمیم کے بعد اب ٹرانسپورٹرز بنک ضمانت یا ٹرانسپورٹرز کو آپریٹیو کے ساتھ ممبر شپ یا پھر انشورنس سرٹیفیکیٹ فراہم کر سکیں گے۔جعلی، غیر معیاری کمپنیوں اور کوآپریٹیوز کی وجہ سے یہ بہت ضروری ہے کہ ایک جنرل انشورنس کمپنی متعارف کرائی جائے جو کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ساتھ رجسٹرڈ ہو۔اس ترامیم کے بعد اب انشورنس کمپنی بنک کے ذریعے اب سٹیج کیرج یا کنٹرکٹ کیرج کے ا کسیڈنٹ کا شکار ہونے والوں کو معاوضے کی ادائیگی کی جائے گی۔۳۔موٹر وہیکل آرڈیننس1965ء کے13th شیڈول میں بھی ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق اب ملک کے دیگر صوبوں کی طرح مسافر کے جاں بحق ہونے کی صورت میں معاوضہ دو لاکھ پچاس ہزار جبکہ زخمی ہونے کی صورت میں کم از کم معاوضہ دس ہزار مقرر کیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل اموات کی صورت میں سولہ ہزار اور زخمیوں کیلئے کم سے کم ایک ہزار معاوضہ مقرر تھا۔۴۔کلیم ٹریبونل میں اب درخواست پچیس ہزار روپے تک دی جا سکے گی اور اس کیلئے نوے دن کی معیار بھی ختم کرکے کیس کو دوبارہ اوپن کیا جا سکے گا۔ ٭وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ اس سے مزید جامع اور بہتر بنایا جائے۔ اضافی ایجنڈا نمبر۔1گاڑیوں کی خریداری پر عائد پابندی نرم کرنے کا فیصلہ:٭صوبائی کابینہ نے پشاور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ/ٹرانسفر ہونے والے 5 معزز جج صاحبان کیلئے5گاڑیوں کے خریدنے پر عائد پابندی کو نرم کرنے اور13.5ملین روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ دینے کی منظوری دیدی۔٭صوبائی کابینہ کے اجلاس میں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ریٹائرڈ/ٹرانسفر ہونے والے معزز جج صاحبان کیلئے1800 CC گاڑیاں خریدنے کیلئے ایک سمری پیش کی گئی تھی۔٭پشاور ہائی کورٹ کیلئے گاڑیوں کی طے شدہ استعداد کو مکمل کرنے کیلئے1800 CC انجن کی حامل مزید 5گاڑیاں خریدنے کی ضرورت ہے جس کیلئے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے گاڑیوں کی خرید پر عائد پابندی کو نرم کرنے کی سفارش کی گئی جبکہ مذکورہ5گاڑیوں کی خرید کیلئے13.5 ملین روپے کی اضافی گرانٹ دینے کی بھی سفارش کی گئی تھی۔اضافی ایجنڈا نمبر۔2خیبر پختونخوا وائلڈ لائف اینڈ بائیو ڈائیورسٹی (پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینیجمنٹ) ایکٹ 2015 میں ترمیم:٭ مذکورہ ایکٹ میں ضروری ترمیم کا ڈرافٹ بل منظوری کیلئے صوبائی کابینہ کے سامنے رکھا گیاجس کی صوبائی کابینہ نے منظوری دی۔٭جنگلی حیات کی حفاظت اور بہتر انتظام کی غرض سے ” خیبر پختونخواوائلڈ لائف اینڈ بائیوں ڈائیورسٹی (پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینیجمنٹ) ایکٹ 2015 (خیبر پختونخوا ایکٹ نمبر 1 آف 2015) کا نفاذ ہو چکا ہے۔ اسی طرح حکومت نے خیبر پختونخوا وائلڈ لائف اینڈ بائیوڈائیورسٹی بورڈ رولز 2016 بھی بنائے ہیں۔٭مذکورہ ایکٹ اور رولز کی رو سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بورڈکے چیئرمین ہونگے جو کہ بورڈ کے اجلاسوں کی صدارت کریں گے۔٭محکمہ قانون نے اس تناظر میں اپنی رائے دیتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی(پاور ز، ایمونیشنز اینڈ پریویلجز) ایکٹ 1988 کے شق 7 کے تحت ایسا اجلاس جس میں ممبر اسمبلی حصہ لے رہے ہوں انہی کو اجلاس کی صدارت کرنا چاہیے۔ چونکہ مذکورہ بورڈ میں وزیر برائے جنگلات، ماحولیاتی اور جنگلی حیات بھی ایک ممبر ہیں لہٰذا مذکورہ ایکٹ کی رو سے محکمہ ہذا کی تجویز قابل عمل نہیں ہے۔٭اسی طرح مذکورہ ایکٹ میں ترمیم کیلئے جب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو سمری بھیجی اور پھر محکمہ قانون کو ارسال کی گئی۔٭مذکورہ رولز میں ضروری ترمیم تجویز کی گئی ہے جسے محکمہ قانون نے بھی ٹھیک قرار دیا ہے۔ اسکی رو سے وزیر جنگلات، ماحولیات وجنگلی حیات اس میں شامل نہیں ہونگے۔ جبکہ اس طرح محکمہ قانون کی ایڈوائس پیرا 4 اور اس سے پہلے کالعدم ہوگا۔٭ اس تناظر میں مذکورہ ایکٹ میں صحیح ترمیم کی ضرورت ہے تا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا وائلڈ لائف اینڈ بائیوڈائیورسٹی بورڈ کے ممبران میں سے کسی کوبورڈ کا چیئر مین نامزد کرانے کے اختیارات دئے جا سکیں۔خیبر پختونخوا پرائیویٹ سکولز ریگولٹری اتھارٹی بل 2016ء:٭محکمہ تعلیم نے نجی تعلیمی اداروں کی نگرانی ان کی رجسٹریشن اور انہیں ریگولیٹ کرنے کیلئے مذکورہ بل باضابطہ طور پر محکمہ قانون، پارلیمانی امور اور ہومن رائٹس ڈیپارٹمنٹ کے مشاورت کے بعد کابینہ میں غور و خوض کیلئے پیش کیا۔٭صوبائی وزیرتعلیم ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین ہوں گے جبکہ دیگر ممبران میں سیکرٹری ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن، سیکرٹری اسٹبلشمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریشن،سیکرٹری خزانہ، ڈائریکٹر ایلیمنٹری اینڈ سیکندری ایجوکیشن، منیجنگ ڈائریکٹرmember-cum-secretary ہوں گے۔٭علاوہ ازیں اتھارٹی میں پرائیویٹ سکولوں کے 4ممبر جبکہ والدین کی طرف سے2ممبر شامل ہوں گے۔مزید برآں حکومت گورنمنٹ ایجوکیشن سیکٹر سے2ماہرین تعلیم مرحلہ وار عرصہ تین سال کیلئے نامزد کرے گی۔٭صوبائی کابینہ نے مذکورہ بل کی منظوری دیدی۔٭وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ اچھ
ی کارکردگی دکھانے والے نجی تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کیلئے انعام مقرر کریں تاکہ اچھے اداروں کی حوصلہ افزائی ہو۔؎ریگولیٹری اتھارٹی کا کام اور اختیارات:1۔سکولوں کو رجسٹرڈ اور ریگولیٹ کرنا، ان کے نصاب کی نگرانی کرنا، تعلیم کی فراہمی کا طریقہ کار، ہر سکول کی کیٹگری کے مطابق فیس ڈھانچے کا تعین کرنا، تعلیم کی فراہمی کا شیڈول، ہم نصابی سرگرمیاں اور سکولوں میں موسم گرم، سرما اور بہار کی چھٹیوں کو گورنمنٹ کے سکولوں کے مطابق یقینی بنانا۔2۔اتھارٹی کی یہ بھی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس سلسلے میں پالیسی ترتیب کرے اور پبلک سیکٹر کو تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرے اور تعلیمی اداروں کی راہنمائی اور قیام کیلئے اصول اورcretaria وضع کرے۔3۔اتھارٹی ہر سکول کی کیٹگری کے مطابق اساتذہ کی کم سے کم تعلیم، تربیت اور service and pay کا تعین بھی کرے گی۔4۔اتھارٹی وہ شرائط بھی بنائے گی جس کے تحت کوئی سکول کھولا اور چلایا جا سکے۔5۔اتھارٹی سکولوں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال بھی کرے گی۔6۔اتھارٹی کا یہ بھی کام ہوگا کہ وہ تعلیم کی فراہمی کے معیار اور سہولیات کے مطابق سکولوں کی درجہ بندی کرے اور اس کے مطابق فیس ڈھانچے کا تعین بھی کرے۔7۔اتھارٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ سکولوں کی فیس میں مناسب اضافے کی درخواست کو قبول یا رد کرے۔اس ضمن میں اتھارٹیinflation rateکو مد نظر رکھے گی۔8۔اتھارٹی وقتاً فوقتاً حکومت سے مشاورت کے بعد district scrutiny committeeکی تشکیل دینے کی مجاز ہوگی۔٭وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ ریگولیشن اتھارٹی سکولوں کے معیار کے مطابق فیس مقرر کرے۔٭وزیراعلیٰ نے مزید ہدایت کی کہ سکولوں کے ساتھ کھیل کے میدان بنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔کمیٹی کی تشکیل:٭اتھارٹی اگر ضروری سمجھے وہ پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی بل2016ء کے ایکٹ کے تحت تعلیمی، انتظامی، مالی، ٹیکنیکل اور خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی مجاز ہوگی تاہم کمیٹیاں اپنا کام ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سے اختیارات کی تفویض کے مطابق کریں گی۔اضافی ایجنڈا نمبر۔5خیبر پختونخواپبلک سروس کمیشن کے ملازمین کی موجودہ20فیصد الاؤنس میں اضافے کے بارے میں وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی سمری:٭ خیبر پختونخواپبلک سروس کمیشن کے ملازمین 1991 کے پے سکیل کے مطابق2فیصد الاؤنس لے رہے تھے تاہم2000ء میں تنخواؤں اور الاؤنسوں پر نظر ثانی کے بعد سیکرٹریٹ اور خیبر پختونخواپبلک سروس کمیشن کے ملازمین کے الاؤنس کو معطل کر دیا گیا تھا۔٭2008ء میں حکومت خیبر پختونخوا مذکورہ20فیصد الاؤنس اور10فیصد یوٹیلٹی الاؤنس کو سیکرٹریٹ ملازمین کو دینے کی منظوری دیدی چونکہ خیبر پختونخواپبلک سروس کمیشن کے ملازمین کو یہ الاؤنس ملا کرتا تھا۔ لہذا مذکورہ الاؤنس کو خیبر پختونخواپبلک سروس کمیشن کے ملازمین کیلئے بھی بحال کیا جائے۔مزید برآں اس میں اضافہ بھی کیا جائے۔٭کابینہ نے یکم جولائی2016ء سے مذکورہ الاؤنس کی منظوری دیدی۔اضافی ایجنڈا نمبر6وفاقی پبلک سروس کمیشن میں علاقائی اور اقلیتی کوٹہ کی اسامیوں کی تقرری:٭ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے ایک خط کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ایک دعویٰ دائر کیا گیا ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں 14اگست2013کو 40سال گزرنے کے بعد علاقائی اور اقلیتوں کی اسامیوں کیلئے مقررشدہ کوٹہ ختم کیا جائے۔چونکہ خیبر پختونخوا معاشی، معاشرتی اور تعلیمی لحاظ سے آج بھی ملک کے دوسرے ترقیافتہ علاقوں سے پیچھے/پسماندہ ہے۔ اس لئے مقررہ کوٹہ ختم ہونے سے صوبے پر منفی اثرات پڑیں گے۔ اور چونکہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں علاقائی اور اقلیتوں کا کوٹہ صوبے کے مفاد میں ہے اس لئے یہ معاملہ صوبائی کابینہ کے سامنے بحث کیلئے پیش کیا جاتا ہے جس کے بعد صوبے کے تمام پارلیمانی ممبران کو بھی یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں اٹھانے کیلئے کہا جائے گا۔٭اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں مشترکہ مفادات کونسل میں آواز اٹھایا جائیگا،اسمبلی میں قرارداد منظور کیا جائیگا جبکہ اعلیٰ عدلیہ میں اس کیس کی پیروی کی جائے گی۔اضافی ایجنڈا نمبر7پبلک لائبریری ایبٹ آباد کو مولانا محمد اسحاق لائبریری ایبٹ آباد کا نام دینا:٭وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اعلیٰ تعلیم، اطلاعات و تعلقات عامہ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے درخواست کی کہ ایبٹ آباد میں واقع پبلک لائبریری کو مولانا محمد اسحاق کے نام سے منسوب کیا جائے اور اس کا نام ” مولانا محمد اسحاق لائبریری ایبٹ آباد “قرار دیا جائے۔وزیر اعلیٰ نے اس پر منظوری کے ریمارکس دئیے ہیں۔٭واضح رہے کہ مولانا محمد اسحاق ہزارہ کی مشہور شخصیت تھی جنہیں “خطیب ہزارہ”کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔وہ جامع مسجد ایبٹ آباد کے 50سال خطیب رہے۔مولانا کے کردار کو میونسپل کمیٹی ایبٹ آباد نے بھی سراہا ہے اور شہر میں پرانی سبزی منڈی روڈ کو مولانا کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔مولانا صاحب کو پاکستان ورکر مومنٹ ٹرسٹ لاہور نے1992میں گولڈ میڈل سے بھی نوازا ہے۔٭محکمہ اعلیٰ تعلیم نے پبلک لائبریری ایبٹ آباد کے نام کو تبدیل کرکے “مولانا محمد اسحاق لائبریری”رکھنے کے سلسلے میں اپنی تجویز پیش کی ہے جس کو صوبائی کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔٭صوبائی کابینہ نے اس تجویز کی منظوری دیدی۔نان ایجنڈا آئٹمز:1۔پی ایم ایس، پی اے ایس اور دیگر افسران کو ایگزیکٹیو الاؤنس دینے کے لئے کمیٹی کے قیام کے سلسلے میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیر خزانہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جائے جو 30مئی تک اپنے سفارشات صوبائی حکومت کو پیش کرے۔2۔منرل ڈیپارٹمنٹ کی ترقی کیلئے ترمیمی بل کی منظوری دیدی گئی۔٭خیبر پختونخوا کو چائنا سرمایہ کاری سے8سے10فیصد منافع ملے گا۔٭توانائی کے منصوبوں سے 17فیصد منافع ملے گا۔٭سیمنٹ کے پلانٹس سے10فیصدمنافع ملے گا۔٭آئل ریفائنری کے منصوبوں سے10فیصد منافع ملے گا۔٭تعمیرات کے شعبے میں پہلے سال40سے50ارب روپے ملیں گے۔