داد بیداد ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔بنی اسرائیل تب اور اب
اسرائیل کا نا م فلسطینیوں پر بے جا اور نا روا ظلم کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظر میں دشمن کانا م ہے اور دشمن بھی ایسا جو مسلمان کے نا م کا دشمن ہے یعنی اسلا م کا دشمن ہے حا لانکہ اسرائیل جلیل القدر پیغمبر اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے حضرت اسحا ق علیہ السلام کانام ہے بنی اسرائیل ان کی اولا د کو کہا جا تا ہے حضرت اسحا ق علیہ السلا م کی تاریخ 6ہزار سال سے اوپر ہے جبکہ ہمارے دشمن اسرائیل کا قیام 1917کے با لفور معا ہدے کے تحت عمل میں آیا اس معا ہدے کی تاریخ صرف 106سال ہے اُس وقت کے بر طا نوی وزیر خار جہ با لفور (Balfur) نے عا لمی صیہونی تنظیم کے ساتھ دو عرب لیڈروں کی ضما نت پر اسرائیل کے نا م سے فلسطین میں صیہونی ریا ست کے قیا م کا معا ہدہ کیا عرب لیڈروں کو معا ہدے کی رو سے دو مرا عات دی گئیں ان کی خوا ہش پر تر کوں کی عثما نی خلا فت کے حصے بخرے کئے گئے، عرب لیڈروں کو عثما نی خلا فت کے کھنڈرات اور بچے کھچے ملبے پر کٹھ پتلی حکومت کے لئے ما لی اور فو جی امداد دی گئی، یوں با لفور معاہدے کے دو فریق نہیں تھے بلکہ چار فریق تھے فلسطینی مسلما نوں کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا تھا اور فلسطینی اس فیصلے سے مکمل طور پر بے خبر تھے آگے جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا ایک باب ہے اب اس تاریخ میں بر طانیہ کا کر دار امریکہ اداکر رہا ہے، عرب شیو خ معا ہدہ بالفور کی روح کے مطا بق کٹھ پتلی حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں، اسرائیل ایٹمی ملک بن چکا ہے اور عرب دنیا پر اس کا پورا غلبہ ہو چکا ہے امریکہ اپنے سیا سی اور ما لیاتی مفا دات کے لئے اسرائیل کے ساتھ فو جی مدد کر رہا ہے جس میں ہر سال اضا فہ دیکھنے میں آتا ہے، بر طا نیہ معا ہدہ با لفور کے تحت اسرائیل کا اتحا دی ہے صورت حا ل یہ ہے کہ 1917ء میں تر کوں کی اسلا می سلطنت کو دنیا میں بڑی طا قت کادرجہ حا صل تھا 106سال بعد وہ در جہ اسرائیل کو حا صل ہوا ہے اسلا می مما لک افراتفری کی کیفیت سے دو چار ہیں انڈو نیشیا اور تر کی سمیت کوئی بھی اسلا می ملک اسرائیل کے مقا بلے کی طا قت نہیں رکھتا، ایسا کیوں ہوا؟ اس کا موا زنہ مشکل نہیں بہت آسان ہے مسلما نوں کی مو جود ہ تاریخ 1400سالوں پر محیط ہے 610عیسوی میں خا تم لانبیاء محمد مصطفٰے ﷺ کو نبوت ملی، 623عیسویں میں نبی کریم ﷺ نے مکہ سے یثرب کی طرف ہجر ت کی اُس وقت سر زمین حجا ز میں یہودیوں کی بستیاں مو جو د تھیں، یہو دیوں کے را ہبوں کی بھی کا فی شہرت تھی بحیرہ راہب نے حضور ﷺ کے مبعوث ہونے کی پیشگوئی کی تھی ساتویں صدی عیسوی میں یہو دی اس طرح تتر بتر ہو چکے تھے جس طرح اکیسویں صدی میں مسلما نوں کا حال ہے، انتشا ر اور نفاق با ہم کی کیفیت سے نکلنے کے لئے 1840اور 1860کے درمیا نی عر صے میں جر منی اور روس کے یہو دی لیڈروں نے آپس میں ایک معا ہدہ طے کیا جس کے تحت دنیا میں صیہو نی مقا صد کے حصول کے لئے چند رہنما اصو ل طے کئے گئے ان اصو لوں میں با ہمی اتفاق، دنیا کے وسائل پر قبضہ، ما لیا تی اداروں، اسلحہ کے کا رخا نوں اور ذرائع ابلا غ پر اجا رہ داری پر اتفاق کیا گیا، 100سال سے بھی کم عرصے میں یہودیوں نے اپنے تما م اہداف حا صل کر لئے آج امریکہ، بر طا نیہ، فرانس، روس، جر منی اور جا پا ن کی طا قتور حکومتیں یہو دیوں کی محتاج ہیں امریکہ میں کوئی حکومت یہودیوں کی حما یت کے بغیر نہ بن سکتی ہے نہ قائم رہ سکتی ہے پا نچ سال پہلے ڈو نلڈ ٹر مپ نے ابرا ہیمی مذا ہب کے پیرو کا روں کو متحد کر کے مشرق وسطیٰ کا مسلہ افہا م و تفہیم سے حا صل کر نے کے لئے روڈ میپ دیا تو اس کو نشان عبرت بنا یا گیا اور اسکی پارٹی کو پیچھے دھکیل دیا گیا 2024کے صدارتی انتخا بات سے پہلے ری پبلکن پارٹی کے سامنے رکا وٹوں کا پہاڑ کھڑا کیا گیا ہے تاکہ فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے ڈیمو کریٹ اگلے 4سالوں کے لئے پھر اقتدار میں آسکیں الغرض 14سو سال پہلے یہودیوں کی جو حا لت تھی آج مسلمانوں کی وہی حا لت ہے اور مسلما نوں کے پا س اتحا د اور بھا ئی چا رے کی جو قوت تھی وہ قوت یہودیوں کے ہا تھوں میں آگئی ہے علا مہ اقبال نے قو موں کے عروج و زوال پر یوں تبصر ہ کیا ہے ؎
تقدیر کے قا ضی کا فتویٰ ہے ازل سے
بے جر م ضعیفی کی سزا مر گ مفا جات