داد بیداد۔۔عدالتی فیصلے کے بعد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

 

سپریم کورٹ نے ایک اہم مقدمے کا فیصلہ دیتے ہوئے آئین اور الیکشن قوانین میں آر ٹیکل 62اور 63کو معطل کر کے بہت اچھا فیصلہ دیا ہے کہ اسلا م میں گنہگار کے لئے تو بہ کی گنجا ئش ہے تاحیات نا اہلی یا کسی مخصوص مدت کے لئے کسی کو ووٹ میں حصہ لینے کے لئے نا اہل قرار دینا اسلا می تعلیمات کے خلاف ہے اس فیصلے سے کس کو فائدہ ہوا کس کو نقصان ہوا یہ الگ بحث ہے اصو لی اور قانونی بات یہ ہے کہ اسمبلی مو جو د نہ ہو، قانون سازی ممکن نہ ہو تو عدالتیں آئین کی تشریح کر سکتی ہیں جو قوانین اسلا م اور شریعت کے خلا ف ہوں ان کو معطل کر سکتی ہیں اس اصول کے تحت عدالت کوا زخود کاروائی (Suo moto) کا اقدام لیتے ہوئے انتخا بی قوانین کی مزید خا میوں کو دور کرنا چاہئیے ان قوانین میں سے ایک نا قص قانون یہ ہے کہ کراچی کا با شندہ کوہستان سے الیکشن لڑسکتا ہے یہ قانون اسلا م کی بنیا دی تعلیمات اور جید علمائے کرام کے مشہور فتاویٰ کے خلاف ہے فارغ بخا ری نے غزل کے شعر میں دریا کو کوزے میں بند کیا ہے امیر شہر کا سکہ ہے کھو ٹا مگر شہر میں چلتا بہت ہے انتخا بی عمل میں اُمید وار کے لئے اس بات کو لا زمی قرار دینا چا ہئیے کہ وہ جہاں سے امید وار بننا چاہتا ہے کم ازکم 5سال سے اس حلقے میں اُس کا نا م انتخا بی فہر ست میں مسلسل مو جود ہو، ایک ما ہ یا دو ما ہ پہلے در ج کیا ہوا نا م قابل قبول نہ ہو یہ بات قرآن اور حدیث کی نصو ص سے ثا بت ہے قرآن مجید میں جن اولوالعزم انبیا ئے کرام کا ذکر آیا ہے ہر نبی نے اپنی قوم سے کہا کہ میری زندگی تمہارے درمیاں گذری ہے نبی آخر الزمان آقائے نا مدار محمد مصطفی ﷺ نے بھی کوہ صفا پر جا کر قریش کو جو پہلی دعوت دی اس میں یہی ارشاد فرمایا کہ میری زندگی تمہارے درمیان گذری ہے تم مجھے جا نتے ہو اس کے بعد دعوت پیش کی،دارلعلوم دیو بند اور مدرسہ امینیہ کے بزرگوں کا یہ دستور تھا کہ مسجد اور مدرسہ کے لئے کسی اجنبی کا لا یا ہوا عطیہ، فدیہ یا چندہ قبول نہیں کرتے تھے پہلے اُس کامکمل پتہ لے لیتے تھے اور کہتے تھے کہ جب ضرورت پڑی ہمارا سفیر تمہارے گھر آکر عطیہ وصول کر ے گا اس کے دیئے ہوئے پتے پر تحقیق کر واتے تھے کہ مو صوف کتنے سالوں سے یہاں رہتا ہے؟ اس کا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ اگر اس کا پتہ، چال و چلن اور ذریعہ آمدن مشکوک ہوتا تو اُس کو خط لکھ کر مطلع کیا جاتا تھا کہ مدرسہ اور مسجد کو حا جت نہیں ہے تم کسی ضرورت مند پر خر چ کرو، اسی طرح ووٹ کے بارے میں پاک و ہند کے جید علمائے کرام نے فتویٰ دیا ہے خصوصاً مفتی محمد شفیع ؒ اور مفتی ولی حسن ٹونکی ؒکے فتاویٰ مو جود ہیں کہ ”ووٹ ایک گواہی اور شہا دت ہے“ اس فتویٰ کی روشنی میں کسی حلقے کے تین لا کھ یا چار لا کھ ووٹر کسی اجنبی کے بارے میں شہا دت نہیں دے سکتے، اگر شہا دت دینگے تو جھوٹی شہا دت قرار دی جائیگی مو جودہ انتخا بات گذر جائینگے مگر اگلے انتخا بات سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنا چاہئیے شرعی احکامات اور کتاب و سنت سے متصا دم ہونے کے ساتھ ساتھ اس قانون کے دو بڑے نقائص اور بھی ہیں اگر ایک مقبول لیڈر اپنے گاوں سے بھی الیکشن لڑتا ہے دوسرے جگہوں سے بھی منتخب ہوتا ہے تو وہ گاوں والی نشست اپنے پا س رکھ کر باقی جگہوں سے استغفٰی دے دیتا ہے جہاں اربوں روپے خر چ کر کے ضمنی انتخاب کرانا پڑتا ہے نیز پارلیمانی پارٹی میں اُس کے ووٹ کم پڑجا تے نتیجہ آتے وقت اگر 100حلقوں سے کا میابی ملی تھی تو پارلیمانی پارٹی کے اندر 10نشستیں خا لی ہو جا تی ہیں اگر کسی سیا ستدان کا آبائی حلقہ نہیں ہے تو وہ انجان حلقے سے کیوں انتخا ب لڑتا ہے؟ اس لئے قانون کے اس نقص کو دور کرنا خود سیا سی جما عتوں کے مفاد میں ہے اس قانون کو معطل ہونا چاہئیے۔