داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔ریلوے کا اُلٹا سفر
جب بھی پا کستان میں ریلوے کا کوئی بڑا حا دثہ ہو تا ہے اس کی انکوائری کا حکم دیا جا تا ہے ہزارہ ایکسپریس کے حا لیہ حا دثے کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تحقیقات کا حکم دیا گیا تحقیقات کے نیتجے میں رپورٹ آئی کہ پٹڑی میں سول انجینرنگ کے نا قص کا م کی وجہ سے لو ہے کی جگہ لکڑی لگا ئی گئی تھی ریل کے انجن میں میکنیکل نقص تھا چنا نچہ 6افسروں کو معطل کر کے کام ختم کیا گیا، مرنے والے مر گئے بقول فیض ؎
نہ مد عی نہ شہادت حساب پا ک ہوا
یہ خون خا ک نشیناں تھا رزق خا ک ہوا
حا دثے کے نتیجے میں جو لوگ معذور ہوئے ان کا کوئی ذکر ہی نہیں آیا، معا ملہ دبا دیا گیا ریلوے کے وزیر کی نو کری کے 10دن باقی تھے اگر استعفیٰ دے دیتے تو اچھی مثال قائم کر تے لیکن ہماری نصیب میں ایسی مثال نہیں لکھی ہے ہمارے ہاں ریلوے، بجلی، موا صلا ت، قدرتی گیس تیل، پی آئی اے اور پا کستان سٹیل ملز کے ساتھ تعلق رکھنے والی وزارتیں زما نہ بھر کے نا لا ئق اور بد عنوان لو گوں کو ملتی ہیں اس لئے ان سب کا ستیا ناس یاسو استیا ناس ہوجاتا ہے ریلوے کا الٹا سفر 1948 ء میں شروع ہوا تھا اب تک الٹا سفر جا ری ہے خیبر پختونخوا کے لو گوں کو پتہ ہے کہ 1948 ء میں در گئی، بنوں اور طور خم کے ریلوے سٹیشن اباد تھے، چارسدہ، مردان، تخت بھائی کے سٹیشن بھی اباد تھے، پشاور صدر کے علا وہ شہر کے سٹیشن پر بھی پوری آب و تاب کے ساتھ رونق ہو تی تھی نو شہرہ سٹیشن کا شمار مصروف ترین سٹیشنوں میں ہوتاتھا چارسدہ کا نوا حی گاوں سٹیشن کو رونہ اُس پر رونق دور سے آباد ہے اب سٹیشن نہ رہا، صرف ”کورونہ“ رہ گیا ہے اگر ریلوے کا سفر 1948کی طرح جا ری رہتا تو اب تک طور خم سے جلا ل اباد اور جلا ل اباد سے کا بل تک پٹڑی بچھائی جا چکی ہو تی بنوں سے وزیر ستان اور کرم تک پٹڑی نظر آتی، ڈیرہ اسمٰعیل خا ن ریلوے کا سفر بیحد پُر لطف ہو تا، درگئی تک جا نے والی پٹڑی کو کا لام، کمراٹ اور چترال تک توسیع دی گئی ہو تی لو گ سیا حتی مقا مات تک جا نے کے لئے ریلوے کے سفر کا لطف اٹھا رہے ہوتے ہم کسی عوامی فورم یا سما جی مجلس میں 1948کے ریلوے سٹیشنوں کا ذکر چھیڑ تے ہیں تو معا شرے کے روشن خیال اور حریت پسند دانشور ہمیں دور ِغلا می کا طعنہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں نو آبا دیا تی دور کی با قیات کو جس نے اکھاڑا اس نے اچھا کیا اب ہم آزاد ہیں نو آبادیا تی دور غلا می کا دور تھا انگریزوں نے ہما رے لئے ریلوے کی پٹڑیاں نہیں بھچا ئی بلکہ اپنی فو ج کے لئے، اپنے افیسروں کے لئے اپنے تو پوں اور ہتھیار وں کی نقل و حمل کے لئے، اپنی فو ج کو راشن پہنچانے کے لئے دور دور تک ریلوے کی پٹڑیاں بچھا کر ہمیں غلا م بنا یا تھا اچھا ہوا کہ اُس دور کی یا د گاروں میں سے بعض یاد گاریں مٹ گئیں جذ باتی لو گ اس قسم کے دلا ئل سے فو راًزیر ہو جاتے ہیں اور پا کستان ریلوے کی بر بادی کو آزادی کا نتیجہ اور جمہوریت کا پھل قرار دیتے ہیں مگر یہ کتابی باتیں ہیں عملی زندگی سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں عملی زند گی میں آزاد قوموں نے نو آبادیا تی دور کے ریلوے کو مزید تر قی دی ریل کی پٹڑی میں ہزاروں کلو میٹر کا اضا فہ کیا سینکڑوں نئے سٹیشن بنا ئے اور سفری سہو لیات میں اضا فہ کیا ہمارے ہاں پہیے کو الٹا گھما یا گیا سیا ست دانوں نے ریلوے کو صرف ایمپلا ئمنٹ کا ذریعہ قرار دیکر اپنے کا رکنوبببں کو دھڑا دھڑ بھرتی کیا جس نے ریلوے کی انتظا می مشنیری کو تباہ کیا، چنا نچہ واپڈا، پی آئی اے اور پا کستان سٹیل ملز کی طرح پا کستان ریلوے بھی سا لا نہ 10ارب سے 20ارب تک کا خسا رہ دکھا تا ہے اگر آج پا کستان ریلوے کو نجی شعبے کے ہاتھ فروخت کیا گیا تو اگلے سال 10ارب کا منا فع دے گا کیونکہ نجی شعبے کا سیٹھ اس کی انتظا میہ کو نا اہل اور نا لا ئق لو گوں سے پا ک کر کے اس کو صاف ستھری نظم و نسق کے ذریعے منا فع بخش ادارہ بنائے گا پھر درگئی سے بنوں اور چارسدہ سے طور خم تک سارے سٹیشن دوبارہ اباد ہونگے اگر ریلوے انگریزوں کی ضروریات پوری کرتا تھا تو ہماری فوج اور سول انتظا میہ کی ضروریات بھی اُسی طرح پوری کرے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ ریلوے کو سیا ست دانوں کے چنگل سے چھین کرکسی سیٹھ کو دیا جائے نجی شعبے میں اس کی کار کر دگی بہتر ہو گی اور ریلوے ایک منا فع بحش ادارہ بنے گا۔