داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔پرانا سیلاب نیا مسلہ
خیبر پختونخوا سمیت ملک کے مختلف حصوں میں سیلا ب کا قصہ پرانا ہو چکا ہے اب سیلا ب کو 8مہینے ہو گئے تا ہم ہر روز سیلا ب سے جڑے ہوئے نئے مسائل سامنے آرہے ہیں ان مسائل کا تعلق نظم و نسق کے فر سودہ نظا م سے ہے اس نظا م کے بارے میں اردو میں ایک بات یاد آتی ہے ”مکھی پر مکھی ما رنا“ اس کا مطلب یہ ہے کہ 40سال پہلے اگر کسی افیسر نے شنا ختی کارڈ دیکھنے کا حکم دیا تھا تو وہ حکم اب تک چل رہا ہے 100سال پہلے اگر کسی افسر نے پُل کی تصویر لینے سے منع کیا تھا وہ حکم اب تک مو جود ہے حا لا نکہ اُس پل کی لا کھوں تصاویر سٹیلا ئٹ کے ذریعے لی جا چکی ہیں اور پوری دنیا میں دیکھی جا تی ہیں 100سال پہلے انگریز افیسر نے ایک جگہ پودا لگا یا اور ایک نو کر کو اس کی حفا ظت پر مقرر کیا اب وہ بہت بڑا در خت بن چکا ہے پھر بھی حفا ظت پر ایک نو کر اب بھی مقرر ہے کیونکہ بڑے صاحب نے کا غذ پر لکھا تھا 20سال پہلے دہشت گرد ی کی ایک وار دات میں پیلے رنگ کی کار پکڑ نے کے بعد حکم دیا گیا تھا کہ جہاں سرکاری دفاتر ہوں وہاں پیلے رنگ کی کار کو داخل نہ ہو نے دیا جا ئے اب تک پورے شہر میں اس پر عمل ہورہا ہے یہاں تک کہ دہشت گر دوں نے پیلے رنگ کی گا ڑی کے استعمال سے پکا تو بہ کر لیا ہے جو لائی اور اگست 2022ء میں سیلا ب کے ہا تھوں بے پنا ہ نقصانات کے بعد متا ثرین کا سر وے کیا گیا سروے کرنے والوں کو ہدایت دی گئی کہ متا ثرہ خا ندان کے سر براہ کا نا م اُس کے باپ کا نا م اور شنا ختی کارڈ نمبر در ج کیا جا ئے حکم منا سب تھا اور قاعدہ قانون کی رو سے درست تھا لیکن مکھی پر مکھی ما رنے والوں نے اس حکم کو متا ثر ین کے لئے عذا ب بنا دیا گھر کے ان پڑھ سر براہ نے شنا ختی کارڈ دکھا یا تو اُس کو کہا گیا کہ یہ کارڈ زائد المیعاد ہو چکا ہے تمہا را نا م درج نہیں ہو سکتا اُس نے 20دن بعد نیا شنا ختی کارڈ بنوا کے لا یا تو اس کو بتا یا گیا کہ سروے کا وقت گذر گیا اب کچھ نہیں ہو سکتا ایک خا ندان کا سر براہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہے وہ شنا ختی کارڈ بنو انے کے لئے بھی نہیں جا سکتا ملک بھر میں متا ثرین کی بڑی تعداد مکھی پر مکھی ما رنے کی وجہ سے بے یارو مدد گار پھر رہی ہے بعض مقا مات پر غیر سرکاری تنظیموں کے رضا کار وں نے متا ثرین کی مدد کر کے انہیں مشکل حالات سے نکا لا مشہور قومی رضا کار اور مخیر شخصیت قاری فیض اللہ چترالی مقیم کرا چی نے سیلا ب کے بعد تین بار چترال کے متا ثرہ علا قوں کا دورہ کیا بعض جگہوں سے لوگوں نے خطوط لکھ کر انہیں دوبارہ دورہ کرنے کی دعوت دی قاری فیض اللہ چترالی کے سامنے جو مسائل پیش کئے گئے ان میں نظم و نسق سے متعلق چار بڑے مسا ئل ہیں سب سے پہلا مسئلہ شنا ختی کارڈ کا ہے ایک غریب آدمی ضلعی ہیڈ کوار ٹر سے دور پہا ڑی گاوں میں رہتا تھا اُس کا گھر سیلاب میں بہہ گیا ڈپٹی کمشنر کہتا ہے کہ تمہارا شنا ختی کارڈ کیوں زائد المیعاد ہے؟وہ بیچارہ کہتا ہے سیلا ب نے میرا شنا ختی کارڈ نہیں دیکھا نہ ہی اس کے زائد المیعاد ہو نے کی پرواہ کی متا ثرین کو دسمبر سے پہلے مکا ن بنا کر دینا چا ہئیے تھا قاری فیض اللہ چترالی نے 60بے گھر خا ندانوں کو مکا ن بنا کر دیا کھوژ اپر چترال میں ایک ایسا خا ندان بھی تھا جس کے پا س مکا ن تعمیر کرنے کے لئے زمین بھی نہیں بچی تھی قاری صاحب نے 3لا کھ روپے میں 22مر لہ زمین خرید کر متا ثرہ خا ندان کے سر براہ کے نا م رجسٹری کر وائی اور مکان بنا کر متا ثرہ خا ندان کو سر دی اور برف باری سے پہلے مکا ن میں منتقل کیا بے شمار متا ثرین نے سر دی اور برف باری کی سختیاں رضا کار تنظیموں کے خیموں میں گذاریں حکو مت نے جس امدادی رقم کا اعلان اگست 2022ء میں کیا تھا اس رقم کا اب تک کوئی سراغ نہیں ملا بڑی بڑی تنظیموں کے لو گ آتے ہیں یہ کہ کر مغذرت کر تے ہیں کہ تمہارا گاوں قدرتی آفات کی زد میں ہے یہاں کچھ نہیں ہو سکتا بریپ کا گا وں اپر چترال میں سیب کی پیداوار کے لئے مشہور ہے پورا گاوں سیلاب سے متا ثر ہوا ہے حکومت بے بس ہے غیر سر کاری تنظیمیں کہتی ہیں تم کسی محفوظ جگہ منتقل ہو جا ؤ ہم تمہاری مد د کرینگے پورے ملک میں سیلاب متا ثرین کے ساتھ اس قسم کا مذاق ہور ہا ہے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) پراونشیل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (PDMA) اور ضلعی انتظا میہ کا فر ض ہے کہ مکھی پر مکھی ما رنے کی جگہ ایمر جنسی کی بنیا د متا ثرین کی بحا لی پر کا م کریں۔