وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ نے ایون کالاش ویلی روڈ پر عملی کام شروع ہونے پر یونین کونسل ایون اور چترال کے عوام کو مبارکباد دی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نما یندہ چترال میل) وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ نے ایون کالاش ویلی روڈ پر عملی کام شروع ہونے پر یونین کونسل ایون اور چترال کے عوام کو مبارکباد دی ہے۔ اور کہاہے۔کہ وزیر اعلی کے دورہ چترال کے موقع پر کالاش ویلیز روڈ کے افتتاح کے ساتھ ہی روڈ پر کام کا آغاز ہو چکاہے۔ پشاور سے ایک ٹیلیفونک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔کہ ایون کالاش ویلیز روڈ کیلئے آل پارٹیز کے قائدین اور چترال کالاش کمیونٹی کے چند سادہ لوح خواتین کو ورغلا کر پریس کانفرنس کرکے روڈ کا مطالبہ کرنے کی بجائے اگر وزیر اعلی کی طرف سے ایون کالاش ویلی روڈ کے افتتاح کا شکریہ ادا کرتے۔ تو یہ زیادہ اچھا ہو تا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے۔ کہ احتجاج کرنے والوں کی دلچسپی اس منصوبے کی تعمیر کی بجائے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں یوسی ایون میں ڈیڑھ ارب روپے کیترقیاتی منصوبے ہو چکے ہیں۔ ان میں ایون آر سی سی پل، ایون گرلز کالج، بمبوریت گرلز ہائی سکول، بریر ہائی سکول، 100سٹوڈنٹس گرلز ہاسٹل، رمبور ہائی سکول میری کوششوں کے نتیجیمیں ہوئے ہیں۔ اسی طرح کالاش قبرستان کیلئے 28کنال زمین، مسلم کمیونٹی شیخاندہ کے قبرستان کیلئے بھی زمین خریدی گئی ہے۔ اب گرمائی چراگاہوں تک سڑک پہنچانے کیلئے 30کروڑروپیوزیر اعلی نے منظور کی ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ اپوزیشن کو کالاش ویلیز روڈ کیلئیفکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر وہ اتنے ہی ایون اورکالاش ویلیز کیخیرخواہ ہیں۔ تو گذشتہ پچاس سالوں کے دوران مختلف پارٹیوں کی حکومتیں آئیں۔ اس دور کیکوئی قابل ذکر منصوبے ایون اور ان وادیوں میں نظر نہیں آرہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ خاموش رہے۔ وزیر زادہ نے کہا۔ کہ سابق حکومتوں نے روڈ کے حوالے سے صرف اعلانات کئے۔ میں نے ایم پی اے بننیکے بعد کالاش ویلیز روڈ کے حوالے سے تمام ریکارڈ کھنگالے۔ لیکن نہ تو اس کیلئیفنڈ مختص کئے گئے تھے۔ نہ زمین کے پیسے اور نہ صوبائی اور مرکزی کیبنٹ میں اس کی منظوری دی گئی تھی۔ اس لئے اس کے قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے وقت درکار تھی۔ اور پی ٹی آئی حکومت نے سابقہ حکومتوں کی نسبت سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ اب کالاش روڈ پر کام جاری ہے۔ معاون خصوصی نے کہا۔ کہ اپر چترال ضلع بھی پی ٹی آئی کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا۔ کہ اپر چترال ضلع کیلئے سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو سے شندور میں مطالبہ کیا گیا۔ تو ان لوگوں پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ فائرنگ کئے گئے۔ اور لوگوں کو گرفتار کرکیپابند سلاسل کیا گیا۔ آج کسی مطالبے اور احتجاج کے بغیر اپرچترال ضلع بن چکا ہے۔ اسی طرح شندور روڈپر عملی کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ کنٹریکٹر آچکا ہے۔ یہ بھی پی ٹی آئی کی کاردگی ہے۔ مستوج اور بونی میں 1122 کے عمارات تعمیر ہو رہے ہیں۔ چترال میں یونیورسٹی کے دو کیمپس چل رہے تھے۔ ان کی جگہ چترال یونیورسٹی کا قیام بھی موجودہ حکومت کا کارنامہ ہے۔ وزیر زادہ نیکہا۔ کہ بعض افراد کو میری لوئر اور اپر چترال کے مختلف مقامات کا دورہ کرکے اعلانات کرنے پر اعتراض ہے۔ ایسیلوگوں کو معلوم ہونا چاہیئے۔ کہ وزیر اعلی خیبر پختونخواہ علاقوں کا دورہ کرنے اور مسائل کی نشاندہی اور ان کیلئے فنڈ کے اعلانات کی ذمہ داری اور اختیار دیا ہے۔ حال ہی میں میں نے اپر چترال کا تفصیلی دورہ کیا۔ تمام مسائل وزیر اعلی کو پیش کئے۔ اور وزیر اعلی نے ان منصوبوں کیلئے 60 کروڑ روپیمنظور کئیہیں۔ جو کہ لوگوں کیلئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں۔ کہ مجھے لاسپور، بروغل، یارخون، تورکہو، موڑکہو کے لوگوں سے ووٹ نہیں لینا۔ کیونکہ میں اقلیتی نمایندہ ہوں۔ لیکن چترال کیبیٹیکی حیثیت سے ان علاقوں میں جاکر ان کے مسائل حکومت تک پہنچانا کوئی غلط کام ہے۔ مجھے معلوم ہے۔ کہ اپر چترال میں ووٹ لینے والے نمایندگان بھول کر بھی ان علاقوں میں نہیں جاتے۔ اور میں پہلا نمایندہ ہوں۔ کہ ان کے مسائل سننے کیلئے ان کے در پر حاضری دی۔مجھے امید ہے۔کہ میرے دوریکے نتائج کو اپر چترال کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ وزیر اعلی کی طرف سے 60 کروڑ روپے فنڈ کی منظوری اس دوریکا حاصل ہے۔ جن سے اس علاقے میں سڑکیں، پل واٹر سپلائی سکیمیں وغیرہ منصوبے مکمل کئیجائیں گے۔ معاون خصوصی وزیر زادہ نے ایون کے لوگوں کو مخاطب کرتیہوئے کہا۔ کہ وزیر اعلی نے جب ایون کالاش ویلیز روڈ پر کام کا آغاز کیا ہے۔ تو ان کے پاس مزید احتجاج کاکیا جواز ہے۔ وہ پچپن سالوں سے کسی بھی حکومت کے وعدے سے مطمئن نہیں تھے۔ کیونکہ 55 سالوں سے انہیں دھوکا دیا جاتا رہا۔ اس لئے پی ٹی آئی کو بھی اسی نظر سے دیکھتے تھے۔ اب جبکہ عملی کام شروع ہو چکا ہے۔ کنٹریکٹر آچکا ہے۔ تو انہیں موجودہ حکومت کا نہ صرف شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ بلکہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونا چاہیئے۔ وزیر زادہ نے کہا۔ کہ میں چیلنج کرتا ہوں۔ کہ کسی بھی حکومت نے چترال میں اتنا کام نہیں کیا۔ جتنا پی ٹی آئی نے کیا ہے۔ ابھی آرندو روڈ، مڈکلشٹ روڈ بن رہا ہے۔ اور کئی منصوبے زیر تعمیر ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ ایون اور بمبوریت کے لوگوں نے ان سیاسی لوگوں کو مسترد کیا ہے۔ جو کالاش کمیونٹی کے چار سادہ لوح بہنوں کو ورغلا کر پریس کانفرنس کی۔ حالانکہ ان بیچاریوں کو یہ بھی معلوم نہیں۔ کہ این ایچ اے کس چیز کا نام ہے اور اس کا کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا۔ اس پریس کانفرنس میں عبدالمجید قریشی اور محترم خطیب خلیق الزمان کے علاوہ ایون اور کلاش ویلیز سے کوئی قابل ذکر لوگ نظر نہیں آئے۔ جس سے ثابت ہے۔ کہ لوگ ان کا سیاسی ایجنڈا سمجھ چکے ہیں۔ ویلیز کیلوگ جانتیہیں۔ کہ پی ٹی آئی کی حکومت کالاش ویلیز میں نئی نہر کشی کرکے زمین آباد کر رہی ہے۔ بچوں کو تعلیمی ماحول دیا جا رہا ہے۔ سکولوں کی تعمیر ہو رہی ہے۔ چترال میں اکنامک زون کا افتتاح ہو چکا ہے۔ کام جارہی ہے۔ کارخانے لگیں گے۔ مائننگ پر کام ہو رہا ہے۔ جو کہ چترال کی تعمیر و ترقی کے منصوبے ہیں۔ اس لئے سوشل میڈیا کے اس دور میں عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔