داد بیداد۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔حملہ ہی حملہ
پو لیو، کو رونا اور ڈینگی کے حملے جاری تھے اوپر سے پنڈو را حملہ آور ہوا ہے اب جا ن عزیز پر بنی ہوئی ہے کس کس حملے کو کیسے روکا جائے اور کس حملہ آور پر کیسا وار کیا جا ئے کہ وار خطا نہ جا ئے ہمارے دوستوں کا کہنا ہے کہ خیر گذری گر میوں کے اختتام کا سیزن آیا چاہتا ہے ورنہ ڈینگی اور پنڈورا کے ساتھ ملخ اور چوہوں کے حملے بھی ہو جا تے اب کم از کم دو دشمنوں سے جا ن چھوٹ گئی ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ پولیو انسا نی نسل کا سب سے مو ذ ی دشمن ہے مگر ہمارے دشمنوں کا خیال ہے کہ پو لیو کو کھلی اجا زت ملنی چا ہئیے پو لیو کے انسداد ی قطروں کے خلا ف سیسہ پلا ئی ہوئی دیوار بن جاؤ اسی طرح شعبہ صحت کے ما ہرین کا کہنا ہے کہ کورونا طویل وباء ہے سال دو سال بعد ختم ہو نے والی بیما ری نہیں اس کے خلا ف ویکسین لگاؤ ما سک پہنے رکھو اور سما جی فاصلوں کی کڑی پا بندی کرو دوسری طرف ہمارے دشمنوں نے جال بچھا ئی ہے کہ کورونا کوئی بیما ری نہیں ویکسین اور ما سک کی ضرورت نہیں سما جی فاصلوں کی حا جت نہیں مو ت کا دن اٹل ہے اس کو ٹا لنے کی طا قت کوئی نہیں رکھتا تم لا پرواہی کرو اور قسمت کو الزام دو ہماری حکو متوں نے کئی سالوں کی محنت، کو شش اور ویکسی نیشن کے ذریعے ملیریا کو ختم کیا یہ کا م مچھروں کے طبع نا زک پر گراں گذرا چنا نچہ مچھروں نے اپنے بڑے بھا ئی کو بلا یا اُس نے ڈینگی پھیلا یا اس نیک کا م میں مچھروں کے بڑے بھا ئی کو میو نسپلیٹی کی پوری مدد حا صل ہے محکمہ صحت کے حکا م کا مکمل تعاون حا صل ہے اور صو بائی حکومت کی تائید بھی حا صل ہے عوام کی طرف سے بھی بھر پور تعاون کا مظا ہرہ دیکھنے میں آرہا ہے ہمارے ایک دوست نے خواجہ حسن نظا می کے طرز پر اخبار کے مدیر کو ایک خط لکھا ہے خط کا آخری حصہ بہت دلچسپ ہے ڈینگی کے حملوں کا پس منظر اور پیش منظر بیان کر کے ہسپتالوں کی حا لت اور ڈاکٹروں پر پو لیس کی لا ٹھی چارج کا حوالہ دینے کے بعد خط میں لکھا ہے کہ مچھروں کی سپریم کونسل کے اجلاس میں تحصیل اور ٹاون کو نسلوں کے حکام کا شکریہ ادا کر نے کے لئے قرار داد منظور کی گئی قرار داد میں کہا گیا کہ متعلقہ حکام کا تعاون اسی طرح جاری رہا تو مچھروں کی سپریم کونسل ڈینگی کا تحفہ لیکر گھر گھر پہنچے گی اور ہر گھر کے دروازے پر دستک دے گی ہم نے ابھی خط کو پوری طرح نہیں پڑھا تھا کہ اوپر سے پنڈورا کے حملے کی خبر آگئی پہلے ہم نے پنڈورا کو بھی ڈینگی کا چچا زاد بھا ئی خیال کیا مگر جلد ہی ہمیں معلوم ہوا کہ اس کی نسل الگ ہے قدیم داستانوں اور کہا نیوں میں آتا ہے کہ شہزادی جنات کے باد شا ہ کی قید میں چلی گئی شہزادہ اس کو ڈھونڈ تے ڈھونڈتے ایک بڑھیا کے پاس گئی بڑھیا نے اس کو صندوق دے کر کہا اس میں وہ نسخہ ہے جو شہزادی کو رہا ئی دلا ئیگا صندوق کو کھو لا تو اندر سے دوسرا صندوق نکلا اس کو کھولا توپھر صندوق بر آمد ہوا 100صندوقوں کو کھولنے کے بعد نسخہ ہاتھ آیا انگریزی میں دیو ما لا ئی کہا نی کے اس صندوق کو پنڈورا ) Pandora)کا صندوق کہا جا تا ہے خیبر پختونخوا کی قدیم زبان کھوار میں پنڈوروایسی شکل کو کہتے ہیں جو گول مٹول ہو اس گول مٹول شکل پر کوئی کیڑا سفر کرے تو واپس اُسی جگہ پہنچے گا جہاں سے چلا تھا پنڈورا کے ڈھنڈ ورے میں دنیا بھر کی اہم شخصیات کے بد عنوا نیوں کے رازوں کا انکشاف ہوا ہے مگر یہ گول دائرے کا چکر ہے چند مہینوں کے لئے گپ شپ کا سا مان ہے آخر میں وہی ہو گا جو پا نا مہ کے انکشا فات کے بعد ہوا تھا یعنی کھودا پہاڑ نکلا چوہا سو ہمارے نصیب میں حملہ لکھا ہے چاہے ڈینگی یا کورونا کا ہو یا پنڈورا کا۔