داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔دل پشو ری
پشاور کی بس رپیڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) خیبر پختونخوا کا روشن اور تابنا ک چہرہ ہے جب کبھی اس میں سفر کر تا ہوں خیا لوں میں کھو جا تا ہوں کبھی ہم بنکا ک، بیجنگ اور فرنکیفرٹ کے میٹرو اور لندن کے ٹیوب کو رشک کی نگا ہ سے دیکھتے اور پرکھتے تھے آج ہم پشاور میں میٹرو اور ٹیوب جیسے ذرائع سفر سے لطف اندوز ہورہے ہیں الیکٹر انک ٹکٹ، صاف ستھری بسیں، صاف ستھرا سفر، اس پر روپے اور پیسے کی حیرت انگیز بچت اس کا نا م ہے خدا دے اور بندہ لے میں خیا لوں میں کھو یا ہوا تھا بس آنکھ جھپکتے ہی حیات اباد کے آخری سٹیشن پر آگئی بس سے اتر نے کو جی نہیں چاہ رہا تھا باہر سے آنے والے کسی بھی شہر کو ٹرا نسپورٹ کی وجہ سے پہچا نتے ہیں ٹرانسپورٹ اچھی ہو تو شہر کے گر ویدہ ہو جا تے ہیں ٹرانسپورٹ کا سسٹم خراب ہو تو دونوں کا نوں کو ہاتھ لگا کر تو بہ کر تے ہیں کہ کس مصیبت میں پھنس گئے میں نے تین سال پہلے جر من دوست کے ساتھ حا جی کیمپ اڈہ سے حیات اباد کا رخانہ مارکیٹ کا سفر کیا یہ میرے دوست کی خواہش تھی کہ شہر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کا تجربہ کیا جا ئے منی بس مسافر وں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا پشتو فلم کا گا نا ”یمہ دٹرک ڈرائیور“ فل والیوم میں بج رہا تھا ایک کلینر اونچی آواز میں کرایہ، کرایہ کی جگہ کارئیے کارئیے کی سریلی اواز یں لگا رہا تھا دوسرا کلینر دروازے پر کھڑے زور زور سے بس کی باڈی کو بجا تا اور ادریگہ استاذکے ساتھ زہ استاذ کا شور مچا رہا تھا جر من دوست اس کلچر سے لطف اٹھا رہا تھا ہم نے 30منٹ کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا جر من دوست نے کہا ہم اتنی مدت میں فرنکیفرٹ سے ہا ئیڈل برگ پہنچ جا تے ہیں شکر ہے کہ میرے دوست کو اردو، پشتو اور ہند کو نہیں آتی تھی ورنہ وہ یہ بھی نوٹ کرتا کہ بس کا کلینر کچہری سٹاپ کو ”قاچرو“ کہتا ہے ٹاون سٹاپ کو ”ٹون“ کہتا ہے جر من سیاح کو بڑی حیرت اس پر ہوئی کہ بہت سے لو گ بس کے چمن میں چھت پر لگے ہوئے دستے پکڑ کر سفر کر رہے ہیں اگر کسی سٹاپ پر ایک سیٹ خا لی ہو تی ہے تو آگے پیچھے کھڑے ہوئے چار بندے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں بس سے اتر نے کے بعد میں نے اپنے دوست کو بتا یا کہ میرا ساتھی ایسے مواقع پر مجھے آگے کر کے زور سے کہتا ہے ”حا جی صاحب تم بیٹھو“آس پا س کے چار بندے پیچھے ہٹتے ہوئے کہتے ہیں ”حا جی صاحب کو بیٹھنے دو“ حقیقت یہ ہے کہ میں داڑھی اور روما ل کی وجہ سے حا جیوں جیسا لگ رہا تھا اور اس حلیے کی بدولت منی بس میں سیٹ مل جا تی تھی میں نے اپنے جرمن دوست کو بتا یا کہ ہمارا ما ضی درخشان تھا 1971ء میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی صاف ستھری بسیں چلتی تھیں ان میں ڈبل ڈیکر بسیں بھی ہوتی تھیں کلینر صاف ستھرا وردی والا بندہ ہوتا تھا چپ کرکے آپ کو ٹکٹ تھما تا اور کچھ بولے بغیر کرایہ لیتا تھا سٹاپ پر رکنے اور سٹاپ سے آگے بڑھنے کا کام ڈرائیور خود جا نتا تھا بس کی باڈی کو بجا نے اور زور زور سے آواز لگا نے کی ضرورت نہیں پڑ تی تھی سٹاپ پر کھڑے لو گ بھی بس کے نمبر کو دیکھ کر پہچان لیتے ان کو ہا نک کر لا نے کی ضرورت نہیں تھی آواز کی آلو د گی نہیں ہو تی تھی چمن میں کوئی مسا فر کھڑا نہیں ہوتا تھا جی ٹی ایس کو ختم کر دیا گیا تو ارام دہ سفر کا باب بھی بند ہوا اور شہر کے اندر منی بسوں کا سیلا ب آیا اس سیلا ب میں سب کچھ چلتا ہے میرے جر من دوست نے پشاور کے ما ضی کا اچھا تا ثر لیا مگر ہمارے سامنے جو تجربہ تھا وہ کسی بھی لحا ظ سے قابل رشک نہیں تھا پشاور کے با سیوں کو وہ دن بھی یا د ہیں جب ہشتنگری اور کا بلی گیٹ پر تا نگوں کے اڈے ہوتے تھے دس بارہ تا نگے کھڑے رہتے شہر سے صدر کا سفر تا نگوں میں ہو تا تھا 4آنہ فی سواری کے حساب سے چھ سواریوں کا کرا یہ ڈیڑھ روپے بنتا تھا کوچوان چا بک لہرا تا تو ایسے لگتا تھا گویا اس کو دنیا جہاں کی سب سے بڑی دولت مل گئی ہے نا ز سینما روڈ پر بخاری پلا ؤ اور قصہ خوانی بازار میں تاوانی پلا ؤ 8آنے میں آتا تھا فردوس سینما روڈ پر جلیل کبا بی کے ہاں 3روپے میں چھ بندے کباب کے لنچ سے لطف اندوز ہوتے تھے پشاور غریبوں شہر کہلا تا تھا آج میں نے بی آر ٹی کے سفر کا جو لطف اٹھا یا بڑا مزہ آیا صحیح معنوں میں ”دل پشوری“ ہو گیا دل پشوری کی تر کیب ہی ایسی ہے جب آپ کو بے پنا ہ لذت اور خو شی یا مسرت حا صل ہو تو اس کیفیت کو ”دل پشوری“ کہتے ہیں بی آر ٹی میں سفر کر تے ہوئے میں نے اپنے جر من دوست کو فون کر کے صورت حال سے آگا ہ کیا اس کو ایک بار پھر پشاور آکر ”دل پشوری“ کر نے کی دعوت دی