دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات،،،،،،،”بہر حال”
جب سے پاک سر زمین آزاد ہوئی ہے ہم اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں پیٹنا بھی چاہیے کہ بڑی قربانیاں دی ہے ہم نے۔اللہ کا قانون ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کام سعی جد و جہد اور قربانی کے بغیر انجام نہیں پاتا یے انسان تو مکلف اور باصلاحیت مخلوق ہے درندے چرندے پرندے بھی بغیر محنت کے روزی نہیں کما سکتے آزادی حاصل کرنا جتنی مشکل تھی اس کو برقرار رکھنا اس سے بھی مشکل کام ہے ہمارے کتنے دشمن ہیں جو ہماری آزادی سے ناخوش اور غلامی سے خوش ہیں وہ ہمیں آزاد خوشحال اور ترقی کرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے وہ ہمارا نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں وہ ہم سے ہمارے بنیادی حقوق چھیننا چاہتے ہیں۔وہ ہمارے جوہری ہتھیاروں کے مخالف ہیں خود انبار لگا رکھے ہیں۔ہم اگراپنی سلامتی کے لیے جدوجہد کریں تو دہشت گرد ہیں وہ اگر دہشت گردی کریں تو ان کی سلامتی کا معاملہ ہے ہم اگر امن کی دہائی دیں تو صدا بہ صحرا ہے وہ اگر دھمکی دیں تو یہ امن و امان کی کوشش ہے اب اس تناظر ہمیں اپنا خیال ہی رکھنا ہے اپنے ارد گرد حالات کا جائزہ لینا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان مشکل ترین حالات سے گزررہا ہے۔بکنیوالے بکتے ہیں کہ ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے۔خاکم بدہن ملک کی سرحدیں محفوظ نہیں ہیں۔ان تبصروں میں کوئی صداقت ہو یا نہ ہو ہمیں ان سے کوئی کام نہیں۔ہمیں ”عوام”. کا نام دیاجاتا ہے۔”عوام” عام کی جمع ہے سیاسی زبان میں ہمیں ”پبلک” کہا جاتا ہے ہم عوام کو ان تبصروں سے کوئی تعلق نہیں نہ ان پہ یقین ہے ہمیں اس بات پہ یقین ہے کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں۔ہمیں ہزار دفعہ یقین ہیکہ ہمارے ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہم اپنے رب سے امید رکھتے ہیں کہ ہمارا ملک کسی مشکل حالت سے نہیں گزررہا۔اگر ایسی کوئی بات ہے تو ہم ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔کہنے والے کہیں گے کہ قربانی نہیں دے سکتے۔کیا یہ قربانی نہیں کہ ہمارا چولہا نہیں جلتا ہماری قوت خرید جواب دے جاتی ہے کہ ہم گوشت سبزی نہیں خرید سکتے عدالتوں میں ہماری شنوائی نہیں ہوتی محکموں میں اقربا پروری ہوتی ہے پولیس کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ادارے اپنے فرائض سے غفلت برتے ہیں لیکن ہم کسی کو کچھ نہیں کہتے ہم تب بھی صابر و شاکر ہیں۔ان کوتاہیوں کو اپنی کمزوری گردانتے ہیں یہ بڑی قربانی ہے ایک بندہ آپ کی دولت سے عیاشی کرے اور آپ کی اس کو کوئی پرواہ نہ ہولیکن آپ پھر بھی خاموش رہیں۔یہ ہمارے شکوے ہیں اپنے بڑوں سے شکوے ہیں۔یہ ہمارے بڑوں کی کمزوریاں اور نااہلی ہے لیکن ان سب کے باوجود ہمارے منہ میں خاک کہ ہم کہدیں کہ ملک کو خطرہ ہے مشکل حالات ہیں۔ہم بہرحال اس مملکت خداداد کو مضبوط اور ناقابل تسخیر ہی کہیں گے۔اس کو اپنی شناخت ہی کہیں گے اس کی بقا کو زندگی اور موت کا مسلہ ہی سمجھیں گے بیشک ہم زندگی کے ہاتھوں مجبور ہوجائیں۔ہمیں سہولیات سے محروم ہی رکھا جائے ہمیں زندگی کی رنگینیاں میسر ہی نہ ہوں ہماری جیبیں خالی ہی رہیں لیکن ہرحال میں ہم اپنے ملک کی بقا کی خاطر اپنی شناخت کی خاطرمطمین ہی رہیں گے۔ہمارے سامنے دنیا کی قوموں کی مثالیں ہیں ان کی غفلت اور ناشکری نے ان کو دربدر کردیا۔ان کی شناخت ختم ہوگء۔ہم ان سیاسی اداکاروں مستنڈوں اور کرداروں سے سوال کر سکتے ہیں کہ ملک میں اگر خوامخواہ بیچینی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔بے چینی پیدا کرنیوالو کیا تمہیں اس کے انجام کی فکر ہے۔ہم بحیثیت قوم قوم بنے نہیں ہیں۔ہم ہجوم ہیں۔ہمیں سدھرنے کے لیے کسی ڈنڈے اور طاقت کا انتظار رہتا ہے اس میں بڑا کردار ہمارا نہیں ہمارے بڑوں کا ہے ہم ہرحال میں خوش اور اپنے ملک کے لیے اپنے رب کا شکرگزار ہیں۔جس طرز حکومت کو ہم جمہوریت کہتے ہیں اس میں ہماری بیداری سب سے بنیادی کردار ادا کرتی ہے ہمارا انتخاب ”حسن انتخاب ” ہو اگر ایسا نہ ہو تو پھر ہم گلہ کس سے کریں۔ہمیں بہر حال اپنے آپ کو ہر لحاظ سے تیار رکھنا چاہیے خواہ وہ ملک کی ترقی کی کوشش ہو یا قربانی کا مرحلہ۔۔اللہ ہر حال میں ہماری مدد کرے