دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔کیا سرکاری سکولوں کے اساتذہ کام نہیں کرتے؟
کیا سرکاری سکولوں کے اساتذہ کام نہیں کرتے؟
کسی زمانے میں استاد بہت انمول ہوا کرتاتھا۔محنتی درد سے بھرا پرخلوص اور پر وقار ہوا کرتا تھا۔۔دور بدلا دور کے نئے تقاضے آئے تو استاد کا وہ تعارف بھی بدلا۔اب وہ مسیحا بمشکل استاد ہے۔اسکی بہت ساری وجوہات ہیں۔اس زمانے میں تعلیم و تربیت کا ذریعہ صرف استاد تھا اس لئے یہ بہت سلجھا ہوا بہت محنتی اور پر خلوص ہوا کرتا تھا اور اس کا شاگرد بھی اسی معیار کا ہو تا تھا۔وہ دل و جان سے تعلیم و تعلم کے لئے وقف ہوتا۔اس زمانے میں بھی ایسے لوگ تھے جن کی تعلیم و تعلم کے ساتھ خدا واسطے کا بیر ہوتا وہ اسی طرح ناکام رہتے۔زمانہ بدلا تو تعلیم و تعلم کا عمل بھی خانوں میں بٹ گیا.کٹیگریز آگئی۔تبدیلیاں آگئیں۔مختلف ادارے بننے لگے مختلف طریقے متعارف ہونے لگے۔پیسہ آگیا۔استاد پیسوں کے ترازو میں تولا جانے لگا۔بھاری فیسیں وصول ہو نے لگیں۔تعلیم مذہبی تہذیبی اور قومی اُمنگوں کی نمایندہ نہیں رہی۔۔بس انگریزی معیار ٹھہری۔۔ایسے میں حکومت کی کوئی توجہ سرکاری سکولوں میں سسٹم پہ نہیں رہی لے دے کے مفت پاس کرو بغیر جانچ پڑتال کے سب کو داخلہ دو.بھولے سے بھی سزا مت دو۔۔استاد کے کام کا کوئی احتساب نہیں۔۔کیا کر رہا کوئی پوچھے تک نہیں۔۔پرائیمری اساتذہ ہیں سہولیات نہیں۔بچہ اپنا چھ سال کا قیمتی وقتprime time ضائع کرکے ہائی سکول میں آتا ہے وہاں اس کو اس روایتی سسٹم میں ڈالا جاتا ہے اس کی کیا learing ہو گی.اب قصوروار استاد کوٹھہرایا جاتا ہے۔ حالانکہ حکومت کو،سسٹم کو نصاب کو،محکمے کو ٹھہرانا چاہیے کیونکہ اگر استاد کام نہیں کر رہا تو محکمہ اور حکومت خاموش کیوں ہیں اس کے کام کا جائزہ کیوں نہیں لیتی۔۔دنیامیں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ کام کا کوئی معیار نہ ہو۔۔ملک میں جتنے بھی غیر سرکاری ادارے ہیں وہ بچوں کے معیار میں compromise نہیں کرتے اگر ٹسٹ میں فیل ہو جائے اس کو داخلہ نہیں ملتا۔ یہ ادارے اپنے پرایمری کو سخت محنت سے مضبوط کرتے ہیں۔آگے قابل بچہ خود پڑھتا ہے۔۔والدین اس کی پل پل نگرانی کرتے ہیں۔ یہ سارے المیے سرکاری سکولوں کے ہیں۔۔ہمارے ہاں جب سرکاری کالجوں میں داخلوں میں میرٹ آیا تو سارے قابل بچے ادھرآگئے اب سرکاری کالجوں میں داخلہ خواب ہے۔۔اب معاشرے میں سب استاد کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں.جب تک سسٹم کمزور رہے گا تعلیمی معیار اسی طرح رہے گا۔۔جو لوگ غیر سرکاری اداروں سے سرکاری استاد بن کے اس سسٹم کے اندر داخل ہو تے ہیں وہ بہت جلد شکست کھاتے ہیں۔۔اس کی وجہ صرف سسٹم کی کمزوری ہے.استاد سے کام کرانا ہوتا ہے۔جب امتحانات درست نہیں ہونگے جب میرٹ نہیں آئے گا جب پاس فیل کا تصور نہیں ہو گا جب بچے کی حوصلہ افزائی استاد کی طرف سے اور نگرانی والدین کی طرف سے نہیں ہو گی۔۔جب سارے بڑے اپنے بچوں کو لے کر سرکاری سکولوں میں نہیں آینگے معیار نہیں بڑھے گا۔۔پبلک سکولوں میں تعلیمی معیار کیسا ہے یہ بھی ہمیں پتہ ہے۔۔اس حقیقت کو ماننے کے لئے کوئی تیار نہیں کہ استاد انسان ہے اس ملک میں وہ کونسا فرشتہ ہے جو بغیر احتساب نگرانی اور جزا و سزا کے خوف کے کام کرتا ہے۔ بس استاد کو کوسو اس کو برا بھلا کہو اس کی تنخواہ کی زیادتی پر اعتراض کرو۔۔۔باقی سارا کاروبار حیات ٹھیک جارہا ہے
غالب خستہ کے بغیر کونسے کام بند ہیں۔
روئے بار بار کیوں کیجئے ہائے ہائے کیوں
میرے خیال میں اساتذہ جیسے بھی ہیں کم از کم محسن قوم ہیں۔۔۔بیشک ان کی کوتاہیاں ہیں لیکن کیا سب ایسے ظالم کام چور اور غافل ہیں۔۔۔۔ایسا بالکل نہیں ہمیں ان اساتذہ پرفخر ہے جو قوم کے حقیقی محسن ہیں۔۔
تازہ ترین
- ہومنو تعینات ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لوئر چترال رفعت اللہ خان (PSP) نے پولیس سہولت مرکز زرگراندہ کا دورہ کرکے مختلف شعبہ جات کا معائنہ کیا۔
- ہومنو تعینات ڈی۔پی۔او لوئر چترال رفعت اللہ خان(PSP) نے سٹی پولیس اسٹیشن چترال کا معائنہ کیا
- مضامینداد بیداد۔ پشاور کی تزئین و آرائش۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی
- ہومڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لوئر چترال رفعت اللہ خان (PSP) نے آج باقاعدہ طور پر اپنے عہدے کا چارچ سنبھال لیا۔
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔’نظام ضرور بدلے گا “۔۔محمد جاوید حیات
- ہوملوئر چترال ٹریفک وارڈن پولیس کی غیر قانونی فلیش لائٹس اور سلنسرز کے خلاف مہم
- ہوممحکمہ صحت خیبرپختونخو کے نئے بھرتی ہونے والے میڈیکل آفیسرزکو تقررنامے جاری
- ہوملیبارٹی ٹیسٹوں کے نرخنامے ہسپتالوں میں نمایاں مقامات پرآویزا کئے جائیں۔ وزیر صحت کی ہدایت
- ہومدادبیداد۔۔۔پشاور تعلیمی بورڈ کا بہترین اقدام۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہومعمران خان کو رہاکراؤ مہم کا آغازچترال سے؛ پریڈ گراونڈ میں پی ٹی آئی کا جلسہ، مرکزی رہنما احمد خان نیازی ودیگر کی شرکت





