کرکٹ، دین اور بدنامی۔۔۔۔۔تحریر۔۔۔۔۔شمس الرحمن تاجک
جنید جمشید ایک کامیاب ترین گلوکار تھے اپنے عروج کے زمانے میں انہوں نے گلوکاری کو خیرآباد کہا اور اسلام کی سربلندی کے لئے زندگی وقف کردی۔ وہ جب گلوکار تھے تب بھی کمال کے تھے، جب مبلغ بنے تب بھی عروج کا لفظ ان کے نام کے ساتھ لگا رہا۔ ان کا کمال صرف یہی تھا کہ جب گلوکار تھے تو صرف گلوکار تھے، جب مبلغ بنے تو تبلیغ کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ ان کو کبھی کسی نے اسٹیج پر نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی تبلیغی اجتماعات کے بعد کبھی وہ گنگناتے تھے۔کیونکہ وہ جب گلوکار تھے تب بھی اپنے شعبے سے مخلص تھے جب مبلغ بنے تو صرف تبلیغ اسلام کو زندگی کا مقصد بنالیا۔ ہماری کرکٹ ٹیم مع کوچ ہر میچ ہارنے کے بعد اسٹیڈیم میں باجماعت نماز ادا کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ 22 کروڑ کو بے وقوف بنانے کا یہی سب سے آسان نسخہ ہے۔ اگر وہ واقعی میں اللہ کی خوشنودی کے لئے نماز پڑھ رہے ہوتے تو ان کی باجماعت نماز کی تصویریں انہی کے ذریعے کبھی سوشل میڈیا پر وائرل نہیں کرائے جاتے۔ عبادت خالصتا اللہ اور بندے کا ذاتی معاملہ ہے یہ کیسی عبادت ہے کہ اللہ سے مکالمے کے دوران تصویریں اتروانے کا باقاعدہ نہ صرف اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ الٹی ٹوپیوں کے ساتھ بنائی گئی تصویریں سوشل میڈیا کے ہر پیچ پراپلوڈ کروائی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کی ہمدردی حاصل کرکے اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالا جاسکے۔ اگر ان کو واقعی مذہب سے لگاؤ ہے تو پوری ٹیم کے لئے انگلینڈ، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے تبلیغی ویزے جاری کروائے جائیں تاکہ وہ ان طاغوتی طاقتوں کے سامنے اسلام کی سربلندی کے لئے بطور مبلغ ڈٹ کر کام کرسکیں۔ جن سے وہ ایک غیر اسلامی کھیل میں روز ہار جاتے ہیں۔اسٹیڈیم میں نماز پڑھنے والے ہمارے بھائی رات کے اندھیروں میں جوا خانوں، ممنوعہ کلبوں اور شیشہ پینے کے مراکز میں پائے جاتے ہیں اور دن کے اجالوں میں مختلف ایجنسیوں کے نمائندوں سے میچ ہارنے کے لئے رشوت وصول کرتے ہوئے اپنی ویڈیوز بنواتے ہیں۔
اسلام کی تبلیغ بطور مسلمان ہم سب پر فرض ہے، تبلیغ کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب پہلے اپنی ذات کو اسلام کی اصل تعلیمات سے ہم آہنگ کریں تاکہ لوگ بطور مسلمان ہمارے اعمال، ہماری طرز زندگی اور اخلاص جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے،سے مثاتر ہوکر لوگ اسلام قبول کریں۔کرکٹ کھیلتے ہوئے ہماری ٹیم کی کارکردگی اور حرکتوں سے اسلام کا بول بالا ہونے کے بجائے الٹا پوری دنیا کے مسلمانوں کا سر شرم سے جھک رہا ہے۔ مغرب میں جو چند افراد اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوچ بھی رہے ہوں گے وہ ہماری ٹیم کے اونگھتے ہوئے فیلڈرز اور وکٹوں کے پیچھے سوتے ہوئے کپتان کو دیکھ کر اسلام قبول کرنے سے گریز کو ہی بہتر سمجھیں گے۔
اگر کسی ایک ایشو پر ہر پارٹی، ہر فرقہ، ہر مکتب فکر اور زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے باسی ایک ہونے کو تیار ہیں، 22 کروڑ لوگ کسی ایک وجہ سے ایک ساتھ خوشیاں یا غم منا رہے ہوتے ہیں تووہ صرف کرکٹ ہے۔ قوم کو جوڑے رکھنے کا واحدذریعہ! مگر آج کل ہر میچ کے دوران اور نتیجہ آنے کے بعد خوشی کا یہ واحد پل چند مفاد پرستوں کی وجہ سے ہمیشہ غم میں بدل جاتا ہے۔ اگر مکمل بے لاگ تبصرہ کیا جائے تو ملک کے 22 کروڑ عوام کو زرداری اور نواز شریف اس دکھ کا عشر عشیرنہ دے سکے جس دکھ سے ہر سال ہماری کرکٹ ٹیم ہمیں دوچار کرتی ہے۔حیرت ہے کہ پوری قوم کو ڈپریشن کا مریض بنانے کے ذمہ دار قوم کے ہیرو ہیں اور پانچ چھ کھرب کے نا معلوم پیسوں سے نا معلوم اثاثے بنانے والے جیل میں سڑ رہے ہیں۔ وہ بھی عمران خان جیسے کرکٹ کے دیوتا کے دور حکومت میں۔
انڈیا کے ساتھ میچ سے کئی دن پہلے 22 کروڑ لوگوں کی نیند اڑ جاتی ہے مگر ہماری کرکٹ ٹیم کے کپتان میچ کے دوران اسٹڈیم میں سو رہے ہوتے ہیں اور دنیا کو دکھا بھی رہے ہوتے ہیں کہ جیت سے زیادہ ان کے لئے نیند اہم ہے، وہ اسٹڈیم میں نیند پوری کرکے رات کو پھر سے ادھر کا رخ کرنا ضروری سمجھتے ہیں جہاں نیند کے علاوہ سب کچھ میسر ہے۔ وہ راتوں کی رنگنیوں کے حصول کے لئے دن کے اجالوں میں 22 کروڑ لوگوں کی جیت کو قربان کردیتا ہے۔ اور کسی تھرڈ کلاس کے رائٹر سے دنیا کا یہ مستند ترین بکواس جملہ لکھوا کر ان 22 کروڑ لوگوں کے جذبات سے کھیل رہا ہوتا ہے کہ ”تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے“ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے اپنی مسلسل ناکامی سے قوم و ملک کا سرمایہ ضائع کرنے والے، دنیا کے سامنے اپنی ناقابل برداشت عمل سے 22 کروڑ لوگوں کا سر نیچے کرنے والے سے کم از کم میں کوئی پیار ویار نہیں کرتا۔ ایک فضول سا شخص یا اشخاص میرے لئے مسلسل بدنامی کا سبب بن رہے ہیں اوپرسے یہ زبردستی کہ میں ان سے پیار بھی کروں۔ جس نے بھی یہ جملہ تخلیق کیا ہے اس بندے سے تفتیش ہونی چاہئے اور قرار واقعی سزا ملنی چاہئے اگر قانون میں اس طرح کے جملے بنانے والوں کے لئے کوئی سزا فی الحال متعین نہیں ہے تو پارلیمنٹ اپنی اولین فرصت میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے بجائے اس پر قانون سازی کرے، تاکہ آئندہ کوئی شخص اس طرح فضول جملے تخلیق کرکے قوم کے جذبات سے نہ کھیل سکے۔
یہاں وزیر اعظم پاکستان سے یہ گزارش سب سے زیادہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کو تبدیل کرنے کے جس مشن پر کام کرنے کا دعوی کررہے ہیں اس مشن کا آغاز اس شعبے سے کریں جس کی وہ مہارت رکھتے ہیں یہی سب سے زیادہ ضروری شعبہ ہے جو قوم کو جوڑنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے،کرکٹ کی ہارکسی پارٹی کی ہار نہیں ہوتی۔ پوری قوم اس ہار کو اپنی توہین سمجھتی ہے۔ہماری کرکٹ ٹیم ہمارے دین، ہمارے ملک اور 22 کروڑ عوام کی بدنامی اور توہین کا مسلسل سبب بن رہا ہے۔ یاد رہے جو لیڈر قوم کی توہین برداشت کرے، بار بار کرے اور چند لوگوں کی مفادات کے پیش نظر اس تذلیل کو طول دینے میں کردار ادا کرے۔ پھر قدرت قوم کے دلوں میں اس لیڈر کے لئے موجود عزت و احترام واپس لینے میں دیر نہیں لگاتی۔ بطور سربراہ مملکت آپ کو کرکٹ ورلڈ کپ کے باقی ماندہ میچوں کی جیت کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ آپملک کے وزیر اعظم ہیں، آرمی چیف ہیں، کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں جو کوئی بھی ہیں جب تک پاکستان کیلئے جیت کو اپنا مقدر نہیں بنائیں گے ہمیں آپ میں سے کسی سے کوئی پیار ویار نہیں ہے۔