ؔ
وفاقی حکومت کے سکرٹریوں سے خطاب کر تے ہو ئے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ یہ زما نہ مخصوص مہارتوں کا زما نہ ہے سپیشلا ئز یشن کا دور ہے ہر شعبے میں مخصو ص مہارتوں کے حامل لوگوں کی ضرورت ہے اور سسٹم میں نیا خون داخل کئے بغیر سسٹم کی اصلا ح نہیں ہو سکتی پنجاب کے اپنے حالیہ دور ے میں وزیر اعظم نے صو بائی بیوروکریسی میں اصلا حات کے لئے سفارشات کی منظو ری دی ہے ان سفارشات کے تحت دو یا تین محکموں کے لئے ایڈیشنل چیف سکرٹری کا عہد ہ لا یا جائے گا بعد میں یہی طریقہ خیبر پختونخوا ہ میں بھی نا فذ کیا جائیگا وفاق میں سکرٹری جنرل کا نیا عہد ہ ہو گا جو دو یا تین محکموں اور ڈویژنوں کو جد ید دور کے تقاضوں کے مطابق کنٹرول کر یگا یہ انقلا بی پروگرام ہے اس پروگرام کو نافذ کر نے کے لئے ڈاکٹر عشر ت حسین کی سفارشات سے بھی مد د لی جا رہی ہے اور وزیر اعظم کے دست راست ارباب شہز اد کا تعاؤن بھی حاصل کیا جارہا ہے دیہاتی زبان میں اس مشق کو ”سُر خ فیتے کا علاج“ کہا جا ئے گا سرخ فیتہ سرکاری دفتروں میں فائلوں پر کسی تجو یز کو سیکشن افیسر سے سکر ٹری اور سکرٹری سے بالائی حکام تک منظوری کے لئے بھیجنے اور منظو ری کے بعد واپس اسی راستے سے سیکشن افیسر کے پاس لانے کا پر انا طریقہ کار ہے فائلوں پر سرخ فیتہ لپیٹ کر اُن کو باند ھا جا تا ہے اس وجہ سے انگر یزی میں ریڈ ٹیپ (Red tap) اور اُردومیں سرخ فیتہ کی ترکیب استعمال ہو تی ہے پبلک ایڈ منسٹر یشن اور پبلک پالیسی میں سرخ فیتے کابا قاعد ہ ایک با ب (Chapter) ہو تا ہے والٹن اکیڈ یمی کی راہد ایو ں میں ”سرخ فیتہ“ راج کر تا ہے سرخ فیتہ کا سب سے کار آمد پُر زہ پیپر انڈر کنسی ڈریشن (PUC) کہلاتا ہے اس کا اردو ترجمہ ہے ”زیر غور کا غذ“، اکرم خان درانی نے سرکاری دفاتر میں انگر یز ی کی جگہ اردو رانج کر نے کا حکم دیا تو اس کا نام ”زیر غور کاغذ“ ہی رکھا گیا سرخ فیتہ اس PUC میں حکمرانوں کو چکر دیتا ہے اُن کے اعلا نات کو ردی کی ٹو کری میں ڈالتا ہے اُن کے عز ائم اور اداروں کو ہوا میں اُڑا دیتا ہے مثلا ً جنگلات کے وزیر نے ایک گاؤں کا دورہ کیا، لوگوں نے مڈل سکول ما نگا وزیر نے مڈل سکول کا اعلان کیا اس اعلان کو وزیر موصوف کے دورے کی رو داد اور اخباری تراشوں کے ساتھ محکمہ تعلیم کے سسٹم میں ڈال دیا گیا ڈائر یکٹر کے دفتر سے فائل سکرٹر یٹ بھیجد ی گئی سیکشن افیسر نے PUC کا خلاصہ بیان کر نے کے بعد لکھا کہ ”قانو ن کی فلا ن فلان دفعات کے تحت پر ائمر ی سکول کو مڈل کا درجہ دینے کے لئے طلباء کی تعداد، دوسرے مڈل سکول سے فاصلہ اور اردگرد علاقے میں دیگر پر ائمر ی سکولوں کی تعداد کے شر ائط رکھے گئے ہیں یہ منصو بہ ان شرائط پر پورا نہیں اتر تا نیز پر ائمر ی سکول کو مڈل کا درجہ دیناوزیر جنگلا ت کے دائر ہ اختیار میں نہیں آتا آگے حضور کی مر ضی “مہذب الفا ظ میں سیکشن افیسر نے لکھا کہ مڈل سکول نہیں بنے گا یہ تجو یز اوپر جا کر واپس آئیگی نتیجہ وہی ہو گا جو سیکشن افیسر نے PUC پر لکھا ہے سیدھی سادی زبان میں اس کو قانون کہتے ہیں رولز ریگو لیشنز کہتے ہیں،اصول و ضو ابط کہتے ہیں، طریقہ کار کہتے ہیں ایڈیشنل چیف سکرٹری یا سکرٹری جنرل اپنے شعبے کا ماہر ہوگا وہ ایم بی اے فنا نس، ایم بی اے مارکیٹنگ یا ایم بی اے ہیو من ریسو رس کی ڈگری لے کر آنے والا بند ہ ہوگا یا چار ٹر ڈ اکا و نٹنٹ ہو گا وہ سیکشن افیسر کو ٹو ئیٹر،میسنجر یا وائٹس ایپ کے ذریعے پیغام بھیجے گا کہ ”مجھے PUC نہیں چاہیے فائل نہیں چاہیے سکول کو مڈل کا درجہ دینے کا آرڈر ٹا ئپ کر کے لے آؤ حکام بالا سے دستخط لینا ہے او ر ہاں 20 منٹ کے اندر یہ کام ہو نا چاہیے اپنا خیال رکھئے“ حکم کی تعمیل ہو گی پر ائمر ی سکول کو وزیر جنگلا ت کے اعلا نات کی روشنی میں مڈل کا درجہ دیا جائے گا یہ وہ انقلا بی کا م ہے جس کی راہ میں سرخ فیتہ رکا ؤٹ بن جا تا ہے PUC کی دیوار حائل کر دیتا ہے حکمرانوں کو نا کام بنا دیتا ہے 4 سال بعد کسی افیسر نے معا ئینہ کیا تو پتہ لگے گا کہ پر ائمر ی سکول میں طلباء کی تعداد 100 سے کم تھی قریبی مڈل سکول کا فاصلہ صرف 2 کلو میٹر تھا کوئی دوسرا پر ائمر ی سکول بھی نہیں تھا اس لئے مڈل سکول نا کام ہو گیا ہے اس کو پھر پر ائمر ی بنا کر طلباء کو قریبی مڈل سکول بھیج دیا جائیگا اور عمارت کو تاحکم ثانی تالا لگا یا جا ئے گا ہر بات میں کیڑے نکالنے والے نئے انتظا می اصلاحات میں بھی کیڑے نکالینگے مگر حکومت اپنا کام کر کے رہے گی ایڈیشنل چیف سکرٹری اور سکرٹری جنرل کو پر کشش تنخواہ اور مراعات دئیے گئے تو ایم بی اے ڈگر ی رکھنے والے نوجوان امریکہ، بر طانیہ، کینیڈا، سنگا پور، دوبئی اور قطر میں 15 لاکھ اور 20 لاکھ ما ہا نہ تنخوا ہ والی نو کر یوں کو لات ما ر کر پاکستان آئینگے اور قوم کی خد مت کر ینگے سُرخ فیتے کا زور ٹوٹ جا ئے گا انگریز کے دئیے ہو ئے انتظا می ڈھا نچے سے قوم کو نجات مل جائیگی سرخ فیتے پر پہلا وار جنرل مشرف اور جنرل تنو یر نقوی نے کیا تھا اب یہ دوسر ا وار ہے اور اس کا سہر ڈاکٹرعشر ت حسین کے سر جا تا ہے