کالاش ویلیز کے بالائی علاقوں میں رہائش پزیر شیخان قبیلے نے ” کاتی کلچر ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن “کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں لایا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمائندہ چترال میل) کالاش ویلیز کے بالائی علاقوں میں رہائش پزیر شیخان قبیلے نے ” کاتی کلچر ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن “کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں لایا ہے۔ جس کے پلیٹ فارم سے کاتی کلچر کے تحفظ, فروغ اور علاقے میں سیاحت کی ترقی کیلئے کام کیا جائے گا۔ تاکہ سیاحتی آمدنی کے ذریعے غربت میں کمی لانے اور بڑ ھتی ہوئی بے روز گار ی پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔ گذشتہ روز ویلج کونسل بمبوریت کے تعاون سے کاتی کلچر ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام بمبوریت شیخاندہ میں کلچر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں شیخان, کھو اور کالاش کمیونٹی کے عمائدین نے شرکت کی۔ علاقے کے ممتاز سماجی رہنما حاجی موسی خان نے کانفرنس کی صدارت کی۔ جبکہ سیکرٹری حیات الدین مہمان خصوصی تھے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے کاتی کلچر کے چیرمین سابق ناظم عبدالمجید قریشی, صوبیدار میجر (ر) محمد یو سف, سیکرٹری حیات الدین, کریم اللہ, کونسلر عنایت اللہ رمبور,کریم اللہ,ممتاز ٹورسٹ گائڈ اشفاق ا حمد اور خلیل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ کہ کاتی کلچر انتہائی قدیم اور منفرد اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس کلچر میں رہن سہن, طعام, ہنڈی کرافٹ,فن تعمیر, قدیم کھیل وغیرہ شامل ہیں۔ خصوصا کھیلوں میں, کشتی, تیر اندازی, اور بزکشی کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے۔ جبکہ سردیوں میں برف پر کھیلے جانے والے سنو گالف اور برف پر پھسلنے کا کھیل (اسکینگ) سمیت بہت سے کھیل موجود ہیں۔ جوکہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کیلئے انتہائی دلچسپی کا باعث ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ تنظیم تمام کھیلوں کے فروغ اور انعقاد کیلئے لائحہ عمل تیار کر ے گا۔ اور اس ذریعے سے سیاحوں کیلئے دلچسپ تفریح کے مواقع مہیا کرے گا۔ اور یہ صحتمند تفریح نوجوانوں کو منشیات اور دیگر برائیوں سے بچا نے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ صدر محفل حاجی موسی خان اور غلام نبی نے کہا۔ کہ حکومت سیاحت کی ترقی کے حوالے سے دعوی کر رہا ہے۔ لیکن سیاحت کی ترقی تب ہی ممکن ہے۔ جب سیاحوں کیلئے سہولت فراہم کرنے کیلئے سڑکوں کی حالت بہتر بنائی جائے۔ ہسپتال میں ڈاکٹر اور علاقے میں صاف پانی اور بجلی کی ضرورت پوری کی جائے۔ جبکہ موجودہ وقت میں کالاش ویلیز کی سڑکیں کھنڈ کا منظر پش کررہی ہیں۔ اکلوتی بی ایچ یو ڈاکٹر اور ادویات دونوں سے محروم ہے۔ اور شیخاندہ میں وافر مقدار میں چشمے کا پانی ہونے کے باوجود ویلی کی بڑی آبادی اور ہوٹلز پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ کانفرنس میں متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا۔ کہ سیاحوں کو شیخاندہ تک رسائی کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے کہا۔کہ سیاحوں کو شیخاندہ جانے سے روکنے کے عمل سے نہ صرف انہیں معاشی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ بلکہ دوسرے لوگوں کے سامنے ان کی عزت اور وقار بھی بری طرح مجروح ہورہا ہے۔