ضلع اپر چترال۔۔۔حقیقت یا فسانہ ۔۔تحریر: فخر عالم

Print Friendly, PDF & Email

8نومبر 2017ء کو پولوگراونڈ چترال میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا اپر چترال کے اعلان سے چند ماہ بورڈ آف ریونیو کی طرف سے باقاعدہ نوٹیفکیکشن کے اجراء تک اپر چترال کے عوام بے یقینی اور ذہنی کوفت میں مبتلا رہے اور نوٹیفکیکشن جاری کرنے میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے ضلع چترال صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے بھی محروم ہوگئی کیونکہ آبادی کے لحاظ سے اپر چترال کو صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ مل جانا تھا۔ پولو گرانڈ میں وزیر اعلیٰ کے اعلان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے نئی اضلاع اور تحصیلوں کے قیام پر پابندی لگانے تک صوبائی حکومت کے پاس چالیس دن سے ذیادہ موجود تھے لیکن پی ٹی آئی کے رہنما ؤں نے اس تاخیر کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈال کر پی ٹی آئی کی صوبائی کی حکومت کو بری الذمہ کرنا چاہتے تھے۔ اس دفعہ بھی یہی کچھ ہونے کا حدشہ ہے کیونکہ نومبر میں محکمہ مال نے نئی ضلعے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا اور پی ٹی آئی کے کارکنان نے پشاور، چترال اور بونی میں مٹھائی تقسیم کرکے خوشی کا مظاہرہ کی اور سیاسی حریفوں کو بار بار یہ پیغامات دیتے رہے کہ پی ٹی آئی نے وعدہ پورا کردیا ہے۔ نوٹیفیکیشن کے اجراء کے بعد چار ماہ گزرنے والے ہیں لیکن ابھی تک اس سمت میں کوئی ٹھوس اور عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے جس سے عوام میں وسوسے اور حدشے دوبارہ جنم لے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں صوبائی کابینہ نے نئی اضلاع کے قیام پر پابندی کا اعلان کیا تھا اور عوامی حلقے اس حدشے کا اظہار کرررہے ہیں کہ اس کا اطلاق اپر چترال کے ضلعے پر بھی ہوگا۔ اگر بظاہر دیکھا جائے تو یہ حدشات بے بنیاد ہرگز نہیں ہیں کیونکہ اب تک ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس افیسر کی تعیناتی عمل میں لانا چاہئے تھا اور اپر چترال کے ہیڈ کوارٹرز بونی میں سرگرمیوں کا آعاز ہونا تھا لیکن وہاں پر کوئی آہٹ بھی سنائی نہیں دے رہی ہے جبکہ عوام کی پریشانیوں میں برابر اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اپر چترال کے قیام کا مطالبہ انتہائی شدت کے ساتھ 1994ء میں شندور کے مقام پر شروع ہو ا تھا جب اس وقت کے وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو جشن شندور کے فائنل میں شرکت کے لئے تشریف لائی تھی۔ اس نے اپنی خطاب میں جب ضلع مستوج (اپر چترال) کے قیام کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تو وہاں پر موجود لوگوں نے احتجاج پر اتر آئے جس پر پولیس حرکت میں آئی اورلاٹھی چار ج کرکے انہیں منتشر کردیا جوکہ جلسہ گاہ اور ہیلی پیڈ کے درمیان حائل تھے۔ تب سے ضلع مستوج کا مطالبہ ہر اس وقت تواتر کے ساتھ کیا جاتا رہا جب وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ چترال کے دورے پر آتے لیکن اس پر کبھی بھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔ پی ٹی آئی کی سابق صوبائی حکومت نے اپر چترال کے ضلعے کا اعلان شاید اس لئے کردیا تھا کہ اس پانچ سالہ دور میں چترال میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہ ہوسکا تھا اور نہ ہی 2015ء میں تاریخ کے بدترین سیلاب کے نتیجے میں ضلعے کے طول وعرض میں انفراسٹرکچر کی لاحق ہونے والی نقصانات ازالہ کرتے ہوئے سیلاب زدہ سڑکوں، پلوں، ابپاشی کے نہہروں اور سکولوں کے عمارات کو بحال کردیا گیا۔ پی ٹی آئی کی مقامی قیادت ان تمام کا ازالہ شائد ضلعے کے قیام کے ذریعے کرنا چاہتی تھی اس لئے قائد پی ٹی آئی عمران خان کی موجودگی میں وزیر اعلیٰ سے یہ اعلان کرادیا جوکہ دراصل انہیں سیاسی طور پر بہت ہی مہنگاپڑ گیا اور عام انتخابات 2018ء میں سیاسی حریفوں نے اس بات کو خوب اچھالا کہ اعلان کے باوجود پی ٹی آئی حکومت نے ضلع اپر چترال کا نوٹیفیکیشن جاری نہ کیا جس سے صوبائی اسمبلی کی یک نشست بھی بچ سکتی تھی۔ سیاسی جلسوں میں پی ٹی آئی کے مخالف جماعتوں کے لئے یہ ایک موضوع تھا جس سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے عوا م کے ذہنوں میں پی ٹی آئی کے خلاف زہر بھرنے میں کامیاب رہے اور پی ٹی آئی قیادت کی کوئی وضاحت کارگر ثابت نہ ہوسکی۔ سیاسی مبٖصریں کے مطابق پی ٹی آئی کی انتخابی شکست کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہا تو اس سال منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ضلع اپر چترال پی ٹی آئی کے گلے میں کانٹا ثابت ہوگا اور ان کے ووٹ بنک کو زبردست نقصان پہنچ سکتا ہے اورخصوصاً اپر چترال کے دس یونین کونسلوں میں اس پارٹی کو سخت ازمائش کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپر چترال ضلع اب مستوج سب ڈویژن کے عوام کے حواس پر ایک بوجھ بن کر رہ گئی ہے اور خاص طور پر محکمہ مال کی طرف سے نوٹیفیکیشن کے اجرا ء کے بعد سے تو یہ معاملہ ایک حساس صورت اختیار کرگئی جس کا اندازہ سوشل میڈیا میں ہونے والے پوسٹوں سے بھی کیا جاسکتا ہے اور آج کل اپر چترال میں بجلی کی ناروا لوڈ شیڈنگ کے خلاف ہونے والے گاؤں گاؤں احتجاجی جلسوں اورجلوسوں میں اس کا بھی تذکرہ کرکے حکومت کی مبینہ وعدہ خلافی کا ڈھنڈورا پیٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا جاتا ہے۔ بعض اندرونی ذرئع کے مطابق اس سال جون سے پہلے پہلے اس طرف عملی قدم اٹھانا مشکل ہے کیونکہ اس میں جو مالی وسائل کی ضرورت ہے اس کا حجم پانچ ارب روپے ہے جوکہ اس وقت حکومت کے پاس موجود نہیں ہے۔ ضلعے میں گزشتہ کئی سالوں سے نئی ترقیاتی کام بھی بہت ہی قلیل تعداد میں شروع کئے گئے جس کی وجہ سے بھی حکومت کے خلاف عوامی جذبات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جبکہ عوام اس مسئلے کو حکومت کی مالی مشکلات کے تناظر میں دیکھنے کو ہر گز تیار نہیں ہے۔ اگرچہ سابق دور کے اواخر میں پلوں اورسڑکوں کے چند ایک منصوبے شروع کئے گئے تھے لیکن موجودہ مالی سال کے دوران ان منصوبہ جات کے لئے allocationنہ ہونے کے برابر ہے جس کی کوئی توجیہ کسی مقامی پی ٹی آئی لیڈر کے پاس ہرگز نہیں ہے۔
اپر چترال کے عوام کا کہنا ہے کہ نئی ضلع سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں آنے پر چار ہزار نئی اسامیاں نکل آئیں گے جس کے نتیجے میں علاقے میں بے روزگاروں کی تعداد میں بڑی حد تک کمی آجائے گی جبکہ لیویز فورس میں بھرتیاں اس کے علاوہ ہوں گے اور روزگارکے مواقع پیدا ہونے سے اس پسماندہ اور غربت زدہ ضلعے میں غربت میں کمی آجائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ترقیاتی کاموں کا جا ل بچھ جائے گا اور ضلع ہونے پر سب ڈویژن مستوج کا نقشہ ہی بدل جائے گا اور پسماندگی و دورافتادگی قصہ پارینہ بن جائیں گے اور 2015ء کے بدترین سیلاب سے متاثر ہ انفراسٹرکچر اپنی جگہ بحال ہوں گے جبکہ بونی کے مقام پر ڈی سی اور ڈی پی او سمیت دوسرے ڈسٹرکٹ افسران کی تعیناتی سے سرکاری محکمہ جات کی کارکردگی پہلے سے کہیں ذیادہ بڑھ جائے گی کیونکہ نگرانی اور مانیٹرنگ کا نظام ذیادہ مستحکم اور مضبوط بنیادوں پراستوار ہوگا۔ انہی وجوہات کی بنا پر مستوج سب ڈویژن کے عوام اس سال مارچ کے وسط تک ڈی سی اور ڈی پی او کے ساتھ ساتھ ایجوکیشن اور ہیلتھ کے ضلعی افسران کی تعیناتی چاہتے ہیں جس کے لئے بونی ٹاؤن میں کرائے کے مکانات بھی موجود ہیں۔ اگراس سلسلے میں مزید تاخیرکا مظاہرہ ہواتواس سے عوام میں بد دلی اور مایوسی پھیل جائے گی۔