دھڑکنوں کی زبان۔۔ ”جی ایچ ایس بمبوریت میں یوم دفاع“۔۔ محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

چھ ستمبر کا دن ہماری زندگی کا وہ یادگار دن ہے جس دن ہم نے اپنی پاک دھرتی کی حفاظت کے لئے میدان میں اترے تھے۔۔ جان ہتیلی پہ تھی۔۔سر پہ کفن باندھا ہوا تھا۔۔سینہ گولیوں سے چھلنی تھا۔۔آنکھوں میں چمک تھی۔رگ رگ میں ایک جذبہ موجزن تھا۔۔پاک فوج کے شیر دل جوانوں کو اللہ نے موقع فراہم کیا تھا کہ وہ اپنی صلاحیتیں دیکھائیں۔۔سر کٹنے کے لئے تیار تھے۔۔خون بہنے کے لئے تیار تھا۔۔بازو اٹھنے کے لئے تیار تھے۔۔بندوق چلنے کے لئے تیار تھی۔۔شیروں کی آکھیوں سے نیندیں کب کی رخصت ہو چکی تھیں۔۔شیر کچھار میں سوتا نہیں۔۔چیتا کودنے میں کوتاہی نہیں کرتا۔۔شاہین کو اپنی انکھوں پہ اعتبارہوتا ہے۔۔عقاب جست لگاتا ہے۔۔اللہ کے شیرروباہی سے ناواقف ہوتے ہیں۔۔ہمارے دشمن نے ایک خواب دیکھا تھا۔۔خواب کی تعبیریں الٹی ہوتی ہیں۔۔وہ خواب کی تعبیر درست طور پہ بوجھ نہ سکے۔۔انھوں نے خواب دیکھا کہ وہ ہماری سرحد سے اندر داخل ہو رہے ہیں۔۔وہ دوڑے آرہے ہیں ہم ریت کی دیوار ہیں۔۔ہمارے نوجوان سوئے ہوئے ہیں۔۔ان کی بندوقیں چلتی ہیں ۔۔دشمن نے دیکھا کہ وہ ناشتہ لاہور میں کر رہے ہیں۔۔ہماری مسجدیں ویران ہیں۔۔ہمارے گھر خالی ہیں۔۔ہمارے بازار سنسان ہیں۔۔ہماری گلی کوچوں میں ہو کا عالم ہے۔۔دشمن نے جاگتے ہی کہا۔۔چلو آگے بڑھتے ہیں۔۔ہمارے سامنے کوئی روکاوٹ نہیں۔۔پاک سر زمین کے محافظ سوئے ہوئے ہیں۔۔آو چلتے ہیں ناشتہ جم خانہ لاہور میں کریں گے۔۔روشنیوں کے شہر میں ناچ گائیں گے۔۔صوفیا ء کے شہر جاکر بھنگڑا ڈالیں گے۔۔ہم نے خواب دیکھا ہے خواب کی تعبیر کرنی ہے۔۔چھ ستمبر کی رات کو دشمن اپنے خواب کی تعبیر کرنے اپنے ناپاک قدم آگے بڑھائے۔۔مگر یہ قدم بڑھتے ہی رگ گئے۔۔یہ لڑکھڑانے لگے۔۔ٹھوکریں سی لگنے لگیں ۔۔چکر سے آنے لگے۔۔رات کی تاریکی اور بڑھنے لگی۔۔راہو ں میں کانٹے سے بچھنے لگے۔۔۔۔یہ تو لاہور ہے۔۔ یہاں پہ لوگ سوئے ہیں۔۔۔نہیں نہیں یہ تو شیروں کی کچھار ہے۔۔۔وہ دیکھو شیر جاگے ہوئے ہیں۔۔وہ دیکھو ان کے ہاتھوں میں بندوق چمک رہی ہیں۔۔۔وہ دیکھو وہ موت کو گلے لگا نے دوڑے ہیں۔۔وہ دیکھو وہ قرض چکانے دوڑے ہیں۔۔وہ دیکھو فضاؤں کے شاہین اڑان بھرے ہیں۔۔شاہین پرواز سے تھک کر نہیں گرتا۔۔یہ تو ؑغضب ہوا۔۔رات کا پچھلا پہر ہے۔۔آگ، خون اور جنون کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔۔ریت کی دیوار سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔۔دشمن سر ٹکرا رہا ہے۔۔یہ کیا غضب ہوا۔۔۔یہ ایسا کب ہو ا۔۔۔مسجدوں سے اللہ اکبر کی سدائیں بلند ہونے لگی ہیں۔۔یہ ویران کب ہیں۔۔سورج گواہ ہے کہ سب سورج سے پہلے جاگے ہیں۔۔یہ کھیم کھرن ہے۔۔یہ چونڈا ہے۔۔یہ بی آر بی نہر ہے۔۔۔یہ لاہور ہے۔۔یہاں پہ ناشتے ہو رہے ہیں۔۔۔جم خانے میں ناشتے ہو رہے ہیں۔۔لیکن ناشتے کا خواب دیکھنے والے ابھی بہت دور وہیں پہ کھڑے ہیں جہان سے ان کو آگے بڑھنا تھا ۔۔ایک طرف عزم و ہمت اور صداقت کی جنگ ہے دوسری طرف مکاری اور منا فقت ہے۔۔حق ناحق کا ساتھ نہیں دیتا۔۔خواب چکنا چور ہیں۔۔ہمت جواب دے گئی ہے۔۔کوشش ناکام ہے۔۔تجربہ تلخ ہے۔۔یہ چھ ستمبر ہے۔۔ یہ یوم دفاع پاکستا ن ہے۔۔۔لیکن میجر ظہیر کہتے ہیں۔۔یہ یوم دفاع نہیں یوم فتح ہے۔۔آج کے دن دشمن کے ساتھ ہمار ا تعارف ہوا تھا کہ ہم کون ہیں۔۔آج ان کو پتہ چلا تھا کہ ہمارے ساتھ ٹکرانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔۔آج ان کو پتہ چلا تھا کہ ہمارے بارے میں کس طرح کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔۔دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا دفاع نہیں فتح ہو تی ہے۔۔ہمارے ان شہیدوں کے خون گواہ ہیں۔۔کہ وہ جیت گئے تھے۔۔زخمی ہسپتالوں میں تڑپ رہے تھے کہ ہمارا علاج نہ کرو ہمیں واپس محاظ پہ لے جاؤ ہم لڑیں گے۔۔بہنیں میدان میں اتر آئیں تھیں۔۔ماؤں نے بندوق اٹھائی تھیں۔۔بچے جنگ کو کھیل سمجھنے لگے تھے۔یہ دفاع کس طرح ہو سکتا ہے یہ تو فتح تھی۔۔بمبوریت کے ہائی سکول کے صحن میں بچے بوڑھے سب جمع تھے۔۔پاک آرمی اور ہائی سکول نے مشترکہ پروگرام ترتیب دے دیا تھا۔۔تلاوت کلام مجید کے بعد نعت شریف پیش کی گئی۔۔سٹیج سیکٹری نے کہا کہ تلاوت کے بعد پر چم کشائی ہونا چاہئیے تھی۔۔مگر نعت شریف اس لئے پیش کی گئی کہ اللہ اپنے حبیب ﷺکے صدقے اس سبز پرچم کا سایہ تا قیامت ہما رے سر پہ رکھے۔۔پرچم کشائی کے بعد جب میجر ظہیر نے سبز ہلالی پر چم کو سلوٹ مارا تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے دل نے کہا۔۔اگر ایسے سپوت اس پرچم کے سائے تلے ہوں۔تو اس سر زمین کا دفاع نا قابل تسخیر ہے۔۔نادان ہیں وہ بیچارے جو۔۔”ناشتے“۔۔ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔۔تقریب میں سکول کے بچوں نے تقاریر اور نغموں کے ذریعے پاک سر زمین سے اپنی ؑعقیدت کا اظہار کیا۔۔میجر ظہیر صاحب جو تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔۔انھوں نے کہا کہ پاک سر زمین قربانیوں سے عبارت ہے۔۔اس کے ذرے ذرے سے قربانیوں کی خوشبو آتی ہے۔۔جہان اس قوم کو اپنے پاسبانوں پہ فخر ہے وہاں پہ پاک فوج کو اس قوم پہ فخر ہے۔۔آج ان شہداء کی روحیں ہم سے صرف اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اس پاک دھرتی کی حفاظت ہم سب پہ فرض بلکہ قرض ہے۔۔یہ دھرتی ہماری پہچان ہے۔۔اس کی خدمت ہمارا مقصد ہے۔۔انھوں نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مستقبل روشنی بن کر تمہاری آنکھوں میں آگیا ہے۔۔اس روشنی کی حفاظت کرو۔۔انھوں نے بچوں کے جذبے اور کارکردگی کو بہت سراہا۔۔عمائدیں نے اپنی تقاریر میں پاک آرمی کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور اس بات کا عہد کیا کہ قوم ان کے شانہ بہ شانہ ہر قر بانی کے لئے تیار ہے۔۔ملک و قوم کی سلامتی اور خوشحالی کی دعا کے ساتھ یہ پروگرام احتتام پذیر ہوا۔۔پاک آرمی کے صوبے دار ضمیر خان جو ایسے پروگراموں کے انتظامات کے ماہر ہوا کرتے ہیں انھوں نے پاک آرمی کی طرف سے مہمانوں اور طلباء کے لئے پر تکلف چائے کا بندوبست کیا تھا اس میں سب نے شرکت کی اور یہ عقیدتوں بھرا پروگرام ختم ہوا۔۔۔اے نگار وطن تو سلامت رہے۔۔۔