دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”ایک ووٹر 8 فروری کے دن“۔۔

Print Friendly, PDF & Email

ایک ووٹر آہستہ آہ بھر کر کہتا ہے کہ کل اٹھ فروری کا دن ہے قوم کی زندگی کا اہم دن۔۔۔یہ دن کبھی کبھی آتا ہے۔۔زندہ قوموں کے لیے یہ دن بڑا اہم ہوا کرتاہے۔یہ دن ان کے لیے زندگی اور موت کی طرح ہے۔۔یا تو زندگی اگر نہیں تو موت۔۔۔زندہ قوموں کے لیے زندہ لیڈرشب کی ضرورت ہوتی ہے اگر لیڈرشب زندہ نہ ہو تو قومیں ڈوبتی ہیں۔۔دنیا میں شخصی اقتدار کے دور میں ایک فرد جو باصلاحیت بادشاہ ہوتا تو وہ چند دنوں میں اپنی حکومت مضبوط سے مضبوط تر بنا دیتا اگر نااہل ہوتا تو راتوں راتوں اقتدار کھو بیٹھتا یہ کیفیت آج بھی ہے لیکن آج کل قومیں پالیسی بناتی ہیں خواہ کرسی پر کوٸی بھی بیٹھے پالیسی بدلتی نہیں وسیع تر قومی مفادمیں بناٸی گئی پالیسی اسی طرح رہتی ہے۔قومیں آگے بڑھتی ہیں لیکن ناکامیاں اس وقت آتی ہیں جب قوموں کے بڑوں میں کھینچاتانی، ہوس اقتدار اور کرسی کی محبت سرایت کر جاتی ہے ان کے پاس ذاتی مفاد کے علاوہ کوٸی پالیسی نہیں ہوتی۔۔ملک خداداد میں اٹھ فروری کادن اہم ہے۔۔ایک ووٹر آج شام سے سوچ رہا ہے۔اس کے سامنے ملک خداداد ہے۔اس کی سالمیت اور ترقی و خوشحالی ہے۔اس کا نصب العین اورنظریہ ہے جس نظریے اور نعرے کی بنیاد پر یہ ملک بنا ہے۔۔۔وہ ہے۔۔اس کو سکول کے زمانے کی استاد کا وہ لکچر یاد ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاء الہ الا اللہ۔۔۔شام ڈھلی ہے رات آۓ گی ایک خوبصورت اور روشن صبح نمودار ہوگی۔آج قوم کی تقدیرکا فیصلہ ہے۔فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔اللہ کو حاضر و ناظر جاننا ہے۔ایسی باصلاحیت،کارآمد، مخلص،دیانتدار اورملک و قوم کے وفادار بندے کو چننا ہے جو قوم کی امنگوں پر پورا اترے۔جو قوم کو دنیا کے اقوام کے سامنے سرخرو کرے۔جو خوشحالی لاۓ۔جو قومی خزانے کو امانت سمجھے۔جو ملک میں انصاف کابول بالا کرے۔ ساری رات وہ یوں خواب دیکھتاریتا ہے تڑپتارہتا ہے۔فیصلہ ضمیر کا ہے فیصلہ قوم کی تقدیرکاہے فیصلہ روشن مستقبل کاہے۔فیصلہ آگے بڑھنے کا ہے۔اس لیے فیصلہ مالک ارض و سماپہ چھوڑتا ہے۔۔کہتا ہے پروردگار یہ ملک تو نے ہمیں عطا کیا۔۔تو نے ہمیں آزادی کی نعمت عطا کی تو نے ہمیں ایک بے مثال قطعہ زمین عطا کیا۔اب تو ہمارا مالک ہے اس سرزمین کی تو ہی حفاظت فرما۔آقا!جو نعمتیں ہمیں عطا کی ہے ان کی قدر کرنے اور ان کی حفاظت کی صلاحیت ہمیں عطا فرما۔تیری سنت ہے تو نعمتیں واپس بھی لیتا ہے تو نا اہلوں کو نعمتوں سے محروم بھی کرتاہے آقا!ہمیں اپنی مہربانیوں سے محروم نہ کر۔۔صبح کی آذان ہوتی ہے۔۔ووٹرز نماز پڑھنے مسجد جاتاہے۔۔نماز ختم ہونے کے بعد امام مسجد سے اونچی آواز میں ملک و قوم کی خوشحالی کے لیے دعا کرنے کی التجا کرتا ہے۔۔گھر آکر ناشتہ کرتا ہے۔۔صاف کپڑے پہنتا ہے وضو بناتا ہے اور اللہ کا نام لے کر پولنگ سٹیشن کی طرف روانہ ہوتا ہے۔راستے میں جو بھی ملتاہے اس کو ووٹ کی اہمیت،ملک و قوم کی سالمیت اور عظیم لیڈرشپ کی ضرورت پہ لکچر دیتا ہے۔پولنگ سٹیشن کے اندرداخل ہوتاہے انتخابات کاعملہ بیٹھا ہے۔شناختی کارڈدیکھاتا ہے اس کے لیے انتخابی پرچی کاٹی جاتی ہے وہ اکیلے میں بسم اللہ کرکے پرچی پہ مہرلگاتا ہے پرچی تہہ کرکے صندوق میں ڈال کر باہر نکلتا ہے۔یہ امانت حق دار کو پہنچاتا ہے۔۔یہ زندہ قوم کازندہ فردہے پاکستانی ہے۔اگر یہ پاکیزہ سوچ ہرایک کی ہو۔۔اگر یہ بے مثال خواب ہر ایک کا ہو۔۔تو یہاں پر کوئی ٹنشن نہ ہو۔۔انتخاب سکوں سے اور میرٹ پہ ہو۔۔۔اسی کو شخصی آزادی (جمہوریت) کہتے ہیں اور اسی ملک کو جمہوری ملک کہتے ہیں۔اس ملک میں یہ مواقع ہرایک کو میسر آتے ہیں۔ہمارے ہاں کوٸی کام معیار کانہیں ہوتا۔ہماری نفرتیں بھی آخری ہوتی ہیں اور محبتیں بھی۔۔۔ہم کسی مصلحت کو نہیں سوچتے۔۔ہم اقتدار کو قومی امانت سمجھنے کی بجاۓ موت و حیات کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔اپنی پسند کے لیے اپنی نا پسند کو قتل کر دیتے ہیں اور اس فعل کو”راستے سے ہٹانا“ کہتے ہیں۔یہ ہماری نااہلی ہے۔۔قوم کے لیے راہبر چنناکوٸی آسان کام نہیں اس میں ذات کا کوٸ کردار نہیں ہوتا اجتماع کا کردار ہوتا ہے۔وسیع تر مفاد کا کردار ہوتا ہے۔۔اللہ اٹھ فروری کو ہمای قوم کے لیے مبارک کرے۔۔اس قوم کو وہ لیڈرشب دے کہ وہ اس کے خوابوں کی تعبیر ہو۔۔یہ نفرتیں دفن ہوجاٸیں محبتیں پرواں چھڑیں۔۔۔اللہ ہمارے حال پر رحم فرماۓ