دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔”چترال کو چترال رہنے دو“

Print Friendly, PDF & Email

یاں تک کہ یہاں پر نعرے بھی بلند نہیں ہوا کرتے تھے۔۔شرافت کا ایک معیار ہوتا تھا کہ شریف کسی دوسرے کی لعن طعن نہیں کرتا۔شرافت پہلے اس کے منہ سے ٹپکتی ہے گویا کہ اس کے منہ سے شرافت لفظوں کا پھول بن کے گرتی ہے۔۔۔۔وہ کہے اور سنا کرے کوٸی۔۔۔۔۔چترال میں سیاسی تحاریک بیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوٸیں۔۔یہ تحاریک ریاستی حکمرانوں کے خلاف ہوں یا نۓ ضلعے میں سیاسی قیادت کی بنیاد رکھنی ہو زیادہ سے زیادہ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے کہیں کہیں بلند ہوتے۔ملکی سیاست کی کوٸی اٸیڈیل تاریخ نہیں۔ملک خداداد کن کی قربانیوں سے وجود میں آیا بہت جلد وہ مخلص قیادت منظر سے غاٸب ہوگٸی ان کی جگہ ہوس اقتدار کے چیمپٸن میدان میں آۓ اور آتے گئے۔۔۔ہمیں یاد تو نہیں البتہ بتایا جاتا ہے کہ ایوب خان نے جب چینی کی قیمت بڑھاٸی تو یہ اس کے سیاسی مخالفوں کے لیے نعرہ بن گیا پھر ہماری سیاست میں غلاظت بھرتی گئی یہاں تک کہ سیاسی مخالفیں ایک دوسرے کی عزت نفس کا بھی خیال نہیں رکھنے لگے۔۔سیدھی سی بات ہے کہ جب سیاسی دنگل سجنے لگتا ہے تو سیاست کے یہ ہیروز اپنے لفاظ کو تولنے کی زحمت نہیں کرتے۔۔۔عظیم سیاسی لیڈرز اور دنیا کیعبقری کبھی بھی شرافت سے گری زبان کو اہمیت نہیں دیتے۔۔۔فخر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کبھی گالی کا ایک لفظ نہیں نکلا۔حضرت امام شافعی رح کو کوٸی سر راہ گالی دے رہا تھا اس کے جواب میں آپ ان کو دعاٸیں دے رہا تھا ایک راہگیر نیموقع پر پوچھا امام صاحب وہ آپ کو گالی دے رہا ہے اور آپ ان کو دعاٸیں دے رہے ہو امام نے فرمایا۔۔۔ان کے پاس مجھے دینے کے لیے گالیاں ہیں میرے پاس دعاٸیں ہیں۔سیاست کی یہ غلاظت آہستہ آہستہ چترال کے اس مہذب معاشرے میں بھی سرایت کر گئی ہے۔۔لیڈرز جب بلندگو سنبھالتے ہیں تو جوش خطابت میں کیا کیا نہیں بکتے۔ماضی دھراۓ جاتے ہیں پروفاٸل اچھالے جاتے ہیں ذات کو نشانہ بنایاجاتا یے یہ سب کچھ کرتے ہوۓ اپنا ماضی اپنی کارکردگی بلکہ اپنا سب کچھ اور اپنے آپ تک بھول جاتے ہیں۔ہم سیاست کو خدمت اور شرافت سمجھنے والے ان پڑھ لوگ ہیں۔ہمیں سیاست سیکوٸی تعلق ہی نہیں رہا لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ قوموں کا لہجہ ان کا تعارف ہوتا ہے کہ یہ مہذب قوم ہے یا غیر مہذب۔۔یہ سنجیدہ قوم ہے یا غیر سنجیدہ۔۔۔قومیں اپناایک اصول رکھتی ہیں۔۔ درد رکھتی ہیں۔ہمارے لیڈروں اور آگے کارکنوں، پھر ان کی وابستگی، وژن اور ان کے لہجے سے واضح ہوتی ہے کہ یہ کس کیلیبر کے لوگ ہیں۔یہ انتخابات ہم نے کئی بار دیکھا آگے نماٸندوں کا حال دیکھا یہ منظر نامہ ختم ہوجاۓ گا مگر جو نفرت ہم پھیلا رہے ہیں جو نا ہمواریاں ہم پیدا کر رہے ہیں ان کو کون پاٹے۔ہمیں آپس میں پھر دوست بھاٸی کوں بناۓ ہمارے رشتے پھر سے کون استوار کرے۔۔ہمارا معاشرہ ہماراہے بے مثال ہے۔۔۔ ہمارے ہاں دشمنیاں پنبتی نہیں ہیں۔ہر لیڈر کو ہر کارکن کو اس معاشرے اور تہذیب کا پاس لحاظ رکھنا چاہیے۔۔ ہم پاکستانی ہیں تو پھر ہمیں پاکستان سے اس کے آٸین سے اس کی تاریخ سے اس کی تہذیب سے، اس سے محبت کرنے والوں سے پیار ہونا چاہیے۔ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔۔اس کا احترام تب ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کا احترام کریں۔۔کیا ایک لیڈر دوسرے کو اپنا سیاسی بھاٸی نہیں کہہ سکتا۔۔یہ کم از کم اس پسماندہ ضلع چترال میں نہیں ہونا چاہیے۔تاکہ ہم مہذب سیاست میں دوسروں کے لیے مثال ہوں۔۔