صوبائی حکومت چترال کے منتخب نمائندوں کو بائی پاس کر کے غیر منتخب اقلیتی ممبر کو ڈیڈک کا چیئرمین بنا کر تمام آئینی حدود کو پھلانگ دیا ہے۔ ایم ایم اے کا پریس کانفرنس سے خطاب

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمائندہ چترال میل)چترال متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں اور جے یو آئی کے منتخب نمائندہ گان ممبرصوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان،ضلع نائب ناظم مولانا عبد الشکور،سابق ایم پی اے مولانا عبد الرحمان،قاری جمال عبد الناصر،قاری فتح الباری،مولاناسلامت اللہ،اور درجنوں دیگر علمائے کرام نے چتر ال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت چترال کے منتخب نمائندوں کو بائی پاس کر کے غیر منتخب اقلیتی ممبر کو ڈیڈک کا چیئرمین بنا کر تمام آئینی حدود کو پھلانگ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ چترال کے ایم پی اے اور ایم این اے پاکستان کی آئین اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رولز کے تحت بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر آئے ہیں اور ان کو مسلم ووٹرز نے ووٹ دے کر ممبر بنایا ہے،اس حوالے سے صوبائی حکومت سے بات چیت بھی ہوئی تھی اور ایک معاہدہ طے بھی پایا تھا کہ اس تناسب سے ممبران کو فنڈز ملیں گے۔اب صوبائی وزیر اعلی اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقلیتی ممبر جن کی کل آبادی ۲ہزار بھی نہیں،کو مسلم آبادی پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی اور یہ سلسلہ آئین پر عملدر آمد تک جاری رہے گا۔انہوں نے کہا کہ اقلیتی علاقے کے لئے اگر صوبائی حکومت کالاش آبادی کو کوئی فنڈ دیتی ہے تو اس کے لئے وہ ان کا شکریہ ادا کریں گے مگر ان کو مسلم آبادی جن کی تعداد لاکھوں میں ہے پر مسلط کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔انہوں نے متفقہ طورپرمطالبہ کیاگیاکہ صوبائی حکومت فورااپنے فیصلے پرنظرثانی کرکے منتخب قومی نمائندہ کوڈیڈک کمیٹی کے چیئرمین شپ دے دی جائے جوکہ اُن کاآئینی اورقانونی حق ہے۔انہوں نے کہ چترال کے ترقی میں تمام اہم فیصلوں میں ایم پی اے چترال سے مشاورت کیاجائے۔انہوں نے مزید کہاکہ اقلیتی ممبروزیرزداہ جوکہ مخصوص نشست پراقلیتی ممبرمنتخب کیاگیاہے لہذا وہ اپنے نام کے ساتھ چترال کے ایم پی اے لکھنے کے بجائے اقلیتی ممبرکے الفاظ استعمال کریں۔انہوں نے مزیدکہاکہ ایک جیدعالم دین کواقلیتی ممبرکے ماتحت لاناہزاروں ووٹرز کی توہیں کے مترادف ہے۔اگرصوبائی حکومت نے اپوزیشن ممبران کے ساتھ سوتیلی ماں کارویہ ترک نہ کیاتواُس کے خلاف بھرپورتحریک چترال کے طول عرض میں شروع کی جائے گی جس کی ذمہ داربھی صوبائی حکومت ہوگی۔