دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔کاغذات نامزدگی۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

کسی بندے کو کسی کام کے لیے اہل سمجھنے کے لیے کچھ اہلیت کے ثبوت چاہیے ہوتے ہیں۔۔بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ عملی کراکے تسلی کی جاتی ہے مثلا ڈرائیور کی گاڑی چلانا دیکھی جاتی ہے۔کسی سے کچھ لکھوا کے کسی سے کچھ پڑھوا کے تسلی کی جاتی ہے۔۔لیڈرشپ اور رہنماٸی ایسی صلاحیت ہے کہ اپنے آپ کو خود منواتی ہے۔۔دیر سے منواتی ہے۔لیڈر کو ہجوم میں رہنا ہوتا ہے اور نمایان رہنا ہوتا ہے۔اس کی صلاحیتیں معاشرہ دوست اور انسان دوست ہوتے ہیں مخلوق خدا خود ان کی طرف کھیچی جاتی ہے۔۔۔مشہور ہندوستانی لیڈر نہرو کے بارے میں کہانیاں مشہور ہیں۔بہت دولت مند خاندان کے چشم و چراغ تھے۔کہتے ہیں سونے کا چمچہ منہ میں لیے پیدا ہوۓ نازو نعم میں پلے بڑے۔۔ولایت سے برسٹر بن کے آۓ ایک دن اپنی ماں سے کہا کہ وہ سیاست کرنا چاہتا ہے،سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتا ہے ماں نے یہ بات ان کے باپ سے کہی۔باپ نے کہا کہ یہ اس کے لیے ناممکن سی بات ہے۔۔بیٹے نے ضد کیا تو ایک دن اس کے باپ نے ایک کچے کمرے میں ننگے فرش پہ ایک چرپاٸی ڈالی معمولی کمبل رکھا اور نہایت معمولی قسم کی ضروریات زندگی اس کمرے میں مہیا کی۔۔بیٹے نے حیران ہو کر پوچھا تو باپ نے کہا اگر سیاست کرنی ہے تو یہاں سے شروع کرو۔۔۔پہلے خود تمہارا تجربہ ہوجاۓکہ غریب نا دار، مفلس، حقوق سے محروم اور ضرورت مند کون ہوتے ہیں؟ اور یہ کس بلا کا نام ہے اور ان کے لیے جدوجہد کہاں سے کس طرح شروع کی جاتی ہے
سیاست ایسی مشکل جدوجہد کا نام ہے یہ سراسر قربانی ہے۔۔ اس کے لیے ایسے ہی پاک صاف باصلاحیت صادق امین فرد کی ضرورت ہوتی ہے۔جو خود اس بھاری ذمہ داری کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کی جرات نہ کرے اس کوپکڑ کے زمہ داری اس کو سونپا جاۓ۔اس کے پاس اتنی صلاحیت اور جرات ہو کہ اس کو اپنی کمزوریوں کا ادراک ہو اور وہ اپنے آپ کو احتساب کیلیے پیش کر سکے۔وطن عزیز میں پچھتر سالوں میں کٸ بارانتخاب کا یہ مرحلہ آیا لیکن ایسا مرحلہ کبھی نہیں آیا کہ کوٸی ایسا لیڈر جو ان حیثیتوں کا مالک ہو اور ایسی بے باکی کا مظاہرہ کر سکے۔ہماری تاریخ ایسی سیاسی بیانیوں اورہ نعروں سے بھری پڑی ہے کہ یاد کرکے شرم آتی۔۔ڈاکو، چور، کرپٹ، مافیا، ایجنٹ وغیرہ کے القاب و آداب سے ہمارے لیڈرزایک دوسرے کو مخاطب اور یاد کرتے رہے ہیں۔ایک حکومت جاتی ہے دوسری آتی ہے یہ ایک دوسرے پر الزامات کی بھر مار کرتے رہتے ہیں پھر وہی آتی ہے اوراس کا بیانیہ ہوتا ہے کہ ”پچھلی حکومتیں“ حالانکہ حکومت اس کی اپنی ہوتی ہے یہ ڈرامے ہم دیکھتے آۓ ہیں اور یہ ڈایلاگز ہم سنتے آۓ ہیں۔ابھی پھر سے انتخابات کا شوشہ ہے اقتدار کے جنونی میدان میں اترنے کے لیے اپنے ”کاغذات نامزدگی“ داخل کر رہے ہیں۔زمہ داران ان کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔یہ کس بنیاد پر کر رہے ہیں یہ تو ہمیں نہیں پتہ البتہ اندازہ بتاتا ہے کہ شاید یہ کسی امیدوار کی تعلیم، تجربہ، معاشرتی کردار وغیرہ چیک کر رہے ہیں۔شاید یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ بحیثیت شہری کتنا زمہ دار ہے۔۔۔کیا یہ ٹیکس چور تو نہیں کیا یہ ناجاٸز طریقے سیجاٸیداد تو نہیں بنایا۔کیا یہ بجلی کا بل ادا کرتا ہے۔کیا کہیں مجرم تو نہیں کہ عدالت نے اس کو سزا دی ہو۔شاید یہ سب کچھ چیک کرنے کیبعد ان کو اہل قرار دیا جاتا ہے۔۔اس مہا کام کے لیے کسی کو اہل قرار دینے کے لیے اور بھی معیارات کا ہونا لازمی قرار دینا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا مثلا اس بندے کا معاشرے میں کیا کردار ہے اس کو کوٸ جانتا بھی ہے کہ نہیں۔اس کا روایہ معاشرے میں کیسا ہے۔اس کی جدو جہد کی کپیسٹی کیا ہے۔اس کی ذہانت، آواز انداز، معاملہ فہمی، صبر و استقلال،دنیا سے باخبر ہونے کی استعداد، صداقت، امانت، دیانت شخصیت یہ سب صلاحیتیں جانچی جاٸیں تب جاکے اس کو نامزد کیا جاۓ مگر یہ خواب ہیں۔۔ایک نامزدگی یہ تھی کہ فاروق اعظم رض کے دربار میں ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوزر عفاری رض آتے ہیں۔فرماتے ہیں کہ امیر المومنین مجھے کوٸی عہدہ دیجیے۔۔امیر المومنیں فرماتے ہیں یہ تیرے کرنے کے کام نہیں۔۔اپنے جنرل کو عین میدان جنگ میں عہدے سے سبکدوش کرتے ہیں۔ہم ان کے وارث ہیں لیکن ہمارے معیار کوٸی نہیں۔اس دفعہ اکثروں کے اچھے اچھوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو چکے ہیں ہمیں تعجب اس بات پہ ہوتی ہے کہ ان میں سے اکثر نے ہم پر حکومت کی ہے ہمارے رہنما رہے ہیں اگر یہ نا اہل تھے تو اس وقت جانچ پڑتال کیسا تھا یا نہیں تھا اگر یہ سچے کہرے ہیں تو مسترد ہونے کی دلیل کیا ہے۔اگر گریبان میں جھانکا جاۓ تو شاید ایک نامزدگی بھی معیار کی نہ ہو۔کیا ہم سب نے بجلی چوری نہیں کی کیا ہم نے گیس پانی کا بل ادا کیا ہے۔کیا ہم نے کبھی کمیشن نہیں لی ناجاٸز سفارش نہیں کی اقربا پروری نہیں کی جھوٹ نہیں بولا۔جھوٹی حمایت نہیں کی۔اگر یہ درست ہے تو کاغذات نامزدگی کیوں مسترد ہوں اگر ایسا نہیں تو کونسے کا غذات نامزدگی۔۔۔