داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔بازار اور انتظا میہ

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔بازار اور انتظا میہ

بازار میں غیر معیاری اشیاء کی بھر مار ہو، ملا وٹ اور ذخیرہ اندوزی عام ہو مہنگا ئی آسمان کو چھو رہی ہو تو عوام کی طرف سے صدر یا وزیر اعظم کو ذمہ دار ٹھہرا یا جا تا ہے خیبر پختونخوا کی معمر شخصیت پیر سید اولاد رسول بیک وقت 3صو بوں پر نظر رکھتے ہیں خیبر پختونخوا میں ان کا گھر ہے گلگت بلتستان میں ان کے قریبی عزیز اور رشتہ دار رہتے ہیں ان کا آنا جا نا لگا رہتا ہے افغانستان کے صوبہ بدخشان پر ان کی خصو صی نظر اور تو جہ رہتی ہے جب بازار میں حا لات نا قابل برداشت ہو تے ہیں تو وہ تینوں کا موازنہ کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ بازار کا مقا می انتظا میہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے وفاق اور صوبے کے حکمرانوں سے بازار کا کوئی لینا دینا نہیں ہے عوام کو بازار میں مہنگائی ذخیرہ اندوزی، ملا وٹ اور غیر معیا ری اشیاء کی خرید و فروخت کا پتہ اُس وقت لگتا ہے جب وہ اشیائے خوراک کی خریداری کے لئے بازار کا رخ کر تے ہیں اگر چہ گوشت، گھی چینی اور دالیں بھی اہمیت کی حا مل ہیں تاہم گندم اور آٹا کی سب سے زیا دہ ضرورت پڑ تی ہے جسم و جا ن کا رشتہ برقرار رکھنے میں گندم اور آٹے کا بنیا دی کر دار ہے پہاڑ کے ایک طرف خیبر پختونخوا ہے کو ہستان یا چترال ہے دوسری طرف گلگت بلتستان یا بدخشان ہے جی بی میں مر غی 400روپے کلو ہے تو خیبر پختونخوا میں 800روپے کا چھوٹا سا چوزہ آجا تا ہے آپ مجسٹریٹ سے شکا یت کریں تو وہ آپ کو فوڈ کنٹرولر کے پا س بھیجتا ہے فوڈ کنٹرو لر بازار کا چکر لگا کر پو لیس کی شکا یت کر تا ہے پو لیس افیسر سارا ملبہ مجسٹریٹ پر ڈال دیتا ہے اس بکھیڑ ے میں عام صارف کا وقت ضا ئع ہو جا تا ہے اور مر غی فروش عوام کو لوٹ کر بازار سے نکل جا تا ہے گلگت بلتستان میں فوڈ کنٹرولر، مجسٹریٹ اور پو لیس مل کر عوام کی مدد کر تے ہیں اس لئے بازار میں عوام خود کو بے دست وپا اور بے اسرا نہیں سمجھتے بدخشان میں مقا می انتظا میہ عوام کی مدد کر تی ہے اس لئے بازار سے عوام کو شکا یت نہیں ہو تی ہفتے میں ایک دن دریا کے پا ر تا جکستان کے کسی قریہ دروازیا شغنان میں منڈی لگتی ہے لو گ وہاں جا کر سودا سلف سستے داموں اٹھا لا تے ہیں ہفتے میں ایک دن دریا کے اس پار بدخشان کے کسی قریہ شکا شم، وردوج وغیرہ میں میلہ لگتا ہے لو گ آسا نی سے وہاں جا کر سستے داموں اشیائے خوراک خرید کر لا تے ہیں دونوں جگہوں میں انتظا میہ قانون کی پا بندی کر تی ہے ایک عامل، امیر یا افیسر ذمہ دار ہو تا ہے عوام کو در بدر پھرنا نہیں پڑ تا عوام انتظا میہ کو اپنا ہمدردسمجھتے ہیں اور انتظا میہ پر اعتماد کر تے ہیں 1972ء میں حکومت نے گلگت بلتستان، کو ہستان اور چترال کو گندم کی قیمت میں سبسڈی کا قانون بنا یا تھا اس قانون کے تحت گلگت بلتستان میں سستا گندم 2023میں بھی دستیاب ہے مگر پہاڑ کی دوسری طرف چترال اور کو ہستان میں گندم اور آٹا گلگت کے مقا بلے میں چار گنی قیمت پر بھی دستیاب نہیں پہاڑ کی دونوں جا نب پا کستان کی کر نسی چلتی ہے بظا ہر پا کستان کا قانون نا فذ ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے 2021میں گلگت کو خیبر پختونخوا سے براستہ شندور اور لواری ٹنل ملا نے والی شاہراہ پر کا م شروع ہوا تھا 2022ء میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے خیبر پختونخوا کے اضلاع چترال اپر اور لوئیر سے بھاری مشنیری واپس منگوا کر کام کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا گلگت میں کا م جا ری ہے ایسا لگتا ہے کہ وہاں کا این ایچ اے الگ اوریہاں کا این ایچ اے الگ ہے اگر ترقیاتی سکیموں کا تعلق اعلیٰ سطح پر حکومت کی پا لیسی سے ہے تو بازار میں عوام کے خلاف غیر قانونی کا روبار، ملا وٹ، ذخیرہ اندوزی، دونمبری اور مہنگا ئی کا تعلق براہ راست مقا می انتظا میہ کی غفلت سے ہے اگر مقا می انتظا میہ گلگت بلتستان اور بدخشان کی طرح فعال ہو گی تو 50فیصد مہنگا ئی کم ہو گی ملا وٹ ذخیرہ اندوزی اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت بند ہو گی۔