قومی آہنگی کا حصول۔۔۔کامیابیوں اور ناکامیوں کی داستان۔۔تحریر: ظہیر الدین

Print Friendly, PDF & Email

قومی آہنگی کا حصول۔۔۔کامیابیوں اور ناکامیوں کی داستان۔۔تحریر: ظہیر الدین
وطن عزیز میں قومی ہم آہنگی قیام پاکستان کے فوراًبعد قائد اعظم کی رحلت کے بعد سے ایک مسئلہ رہا ہے اور اس بحران کی وجہ سے ہی ایک ربع صدی بعد ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی ملک میں قومی ہم آہنگی میں مدوجزر پائی جاتی ہے اور موجودہ صورت حال میں یہ سوال شدت اختیارکرگئی ہے۔ گزشتہ دنوں اس موضوع یعنی National Intergration; Success and Failure پرپشاور یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈی سنٹر میں ایم۔ اے کی ڈگری کے حصول کے لئے 1991ء میں لکھی گئی ایک تھیسز پڑھنے کا موقع ملا۔ اس تحقیقی کاوش میں فضل سبحان صاحب (اس وقت گورنمنٹ سینٹنیل ماڈل سکول چترال کے پرنسپل ہیں)نے آج سے 32سال پہلے قومی ہم آہنگی کے حوالے سے صورت حال کی جو منظر کشی کی ہے،حاضر وقت سے سو نہیں تو ننانوے فیصدضرور مطابقت رکھتی ہے جس میں انتہائی محنت سے ان عوامل اور قوتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جوکہ وطن عزیز میں قومی ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اورجنہیں ہٹائے بغیر ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے نہیں ہوسکتے۔
ایک سو پچاس فل اسکیپ سائز کی صفحات پر مشتمل یہ تھیسزچھ ابواب میں منقسم ہے جن میں موضوع کی تفصیلی تعارف، قوم کی تعمیر وترقی اور ہم آہنگی، بیوروکریسی اور قومی ہم آہنگی، فیصلہ سازی اور لیڈرشپ اور آئین سازی کے تحت ان حقائق اور عوامل کو سامنے لاتے ہوئے ایک ایک جز کی ثبوت میں مستند حوالہ بھی دے دیا گیا ہے جبکہ تحقیق کار نے کسی بھی جگہ اپنی ذاتی رائے کو درمیاں میں ٹھونسنے یا خیال آرائی کی کوشش نہیں کی ہے اور صرف ضرورت کے مقامات پر ہی مختلف نتائج کو ایک ہی لڑی میں پروکر مرکزی خیال اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسلامی آئیڈیالوجی (نظریہ حیات)کی بنیاد پرمعرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان کے لئے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی عظیم جدوجہد کے ذکر سے شروع کرتے ہوئے اس بات کا کئی جگہوں پر اعادہ کرتے ہوئے ان عوامل کا ذکر نہایت لطیف پیرائے میں کیا گیا ہے جوکہ اس کے مقاصد کے حصول میں مانع ثابت ہوئے اور پاکستان کا مطلب کیا؟۔لاالہ الی اللہ کے نعرے کی بنیاد پر حاصل کردہ اس مملکت کے لئے دیکھی گئی خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کیا جاسکا جس کے لئے قربانیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ برپا کیا گیا تھا۔ قوم کی تشکیل اور ہم آہنگی کے باب میں ان عوامل کا ذکر ہے جوکہ جدید ریاست کی بنیاد بنتے ہیں جن میں مشترکہ علاقہ، تاریخ، زبان، مفادات و جذبات واحساسات شامل ہیں ٍ۔ خیبر سے لے کر چٹاگانگ تک پھیلی اس وسیع مملکت میں رہنے والے کروڑوں افراد کو ایک ساتھ متحد رکھنے میں کلمہ طیبہ نے ا ٓپس میں جوڑنے کا تو بنیادی کردار ادا کیا لیکن دوسرے عوامل کی گرفت کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی تو علیحدگی کا بیج پروان چڑھنا شروع ہوا جوکہ آخر کار دوقومی نظرئیے پر کی بنیاد پر قائم مملکت کا دولخت ہونے پر منتج ہوا۔ اس طرح ان تمام عوامل کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے جوکہ سقوط ڈھاکہ کے سبب بن گئے اور ان محرومیوں کو بلاکم وکاست بیان کئے گئے ہیں جوکہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں نے بنگالیوں کے ساتھ روا رکھا تھا جن میں 54فیصد آبادی کی بولی ہونے کے باوجود کو بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ نہ دینا، سول سروس اور فوج میں مشرقی پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہونا، مادی وسائل کا غیر منصفانہ تقسیم فوری وجوہات کے طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ اس بات کا تذکرہ ہی کافی ہے کہ ملک کی زرمبادلہ کی 60سے 80فیصد کا ذریعہ پٹ سن مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے کے باوجود ذیادہ حصہ مغربی پاکستان کی ترقی پر خرچ ہوتا تھا جس سے احساس محرومی کا پیدا ہونا اور ہم آہنگی کو سخب دھچکا لگنا قدرتی امر تھا۔
قومی ہم آہنگی پیدا کرنے اور اسے قائم ودائم رکھنے اور مزید استحکام میں افسر شاہی (بیوروکریسی) اور سیاسی قیادت کی اہمیت اور قیام پاکستان کے بعد سیاسی قائدین اور افسر شاہی کے کردار کو تیسرے اور چوتھے ابواب میں واضح کردئیے گئے ہیں جس سے یہ تکلیف دہ اور تلخ حقیقت اشکارا ہوجاتی ہے کہ سیاسی قیادت اور افسر شاہی دونوں نے اپنی کردار سے قومی ہم آہنگی کو پار ہ پارہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی ہیں۔ افسر شاہی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افسران کی اکثریت نے ا پنے آپ کو سول سرونٹ سے ذیادہ آقا اور حکمران ثابت کیا اور نوآبادیاتی طرز پر حکومتی مشینری کو چلاتے رہے جس سے ہم آہنگی کی بنیادیں ڈھیلی پڑ نے کا عمل شروع ہوگئے۔ 1965ء میں مشرقی پاکستان کا افسر شاہی میں حصہ 36فیصد سے بھی کم تھا جوکہ آبادی کی تناسب سے کہیں نیچے ہے اور پاک فوج میں بھی بنگالیوں کی تعداد بسبتاً نہ ہونے کے برابر تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بنگال کے نام سے کوئی رجمنٹ موجود نہ تھا۔ آزادی کے فوراً بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت سے قیادت کا وہ خلاء پید ا ہوا جسے کوئی نہ بھرسکا اور محلاتی سازشوں اور کرسی کے لئے اندھادھند دوڑ نے جمہوریت کا بساط لپیٹ دیا اور فوجی افسران اقتدار کی جنگ میں شامل ہوگئے اور 1956ء ا ور 1962ء میں آئین بنائے اور ختم کردئیے گئے اور ملک یکے بعد دیگرے دو فوجی حکمرانوں کے تحت بارہ سال تک ہر شعبے میں تنزل کا شکار رہا۔ کم ووٹ کے حامل سیاسی جماعت نے جب جمہوریت کے یونیورسل اصول پر اکثریت کو اقتدار سے محروم کردی تومشرقی پاکستانیوں کی صبرو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن طلوع ہوا جس کاذمہ دار سیاسی قیادت ہے۔ملک کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد بھی قیادت اور بیوروکریسی نے ملک کو اس نہج پر پہنچادیا کہ مارشل لاء کی سیاہ رات نے ملک کو گیار ہ سال تک اپنے نرغے میں رکھا اور کلاشنکوف کلچر کو پروان چڑہانے اور مختلف مرکزگریز قوتوں نے علاقائیت اور نسل کی بنیاد پرسر اٹھالیااور قومی ہم آہنگی کومزید پست تر سطح پر لے آیا۔
تھیسز کے آخر میں قومی ہم آہنگی پیدا کرنے اور اسے مستحکم بنانے کے لئے کئی ایک تجاویز پیش کئے گئے ہیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ہر قسم کی استحصال اور ظلم سے پاک معاشرتی انصاف کا نظام قائم کیا جائے۔
۲۔ نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں ا س طرز پر برپا کرنا کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے فارع ہونے والے قومی امنگوں اور ضروریات کو پوری کرنے کے قابل افرادی قوت ثابت ہوسکیں۔
۳۔ معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی اداروں کو بہبود عامہ کی بنیاد پر قائم اور مستحکم کرنا۔
۴۔ اسلامی تعلیمات، اسلامی تاریخ اور پاکستان کے بارے میں نئی نسل کو ذیادہ سے ذیادہ معلومات کی فراہمی کے لئے انتظام کرنا۔
۵۔ افسرشاہی کی بنیادی ساخت میں اس طرح تبدیلی اور دوبارہ تعمیر کرنا کہ یہ ایک آزادنظریاتی ریاست کی ضروریات کو پوری کرنے کے قابل ہو۔
۶۔ ملکی سالمیت کو یقینی بنانے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کئے جائیں جن میں سیاسی اصلاحات بھی شامل ہوں اور صرف ایسی سیاسی جماعتوں کو اجازت دی جائے جن کی موجودگی چاروں صوبوں میں ہو۔
۷۔ الیکشن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر منعقد کئے جائیں۔