دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔”ہم قطار میں کھڑے ہیں“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔”ہم قطار میں کھڑے ہیں“
قطار میں ترتیب سے سکون سے کھڑا رہنا باترتیب اور منظم ہونے کی نشانی ہے بندہ اپنی باری پر اپنا مسلہ حل کرے گا کسی کا حق مارا نہیں جا? گا کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی زندہ قوموں کے یہ افسانوی قصے لوگ سناتے رہے ہیں سری لنکا جیسے غریب ملک کے باشندوں کو میں نے ان کے ا?ر پورٹ پر ٹرمینل کے ہال میں آرام سے بیٹھے ہو? دیکھا پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اپنا نسبتا ترقیافتہ ملک پاکستانیوں کے کراچی ا?ر پورٹ یاد آیا ایک ہلا گولا ایک ہا? ہو ٹیکسیوں اور ٹیکسی والوں کی چیخ و پکار دھکم پیل۔۔۔۔ہم بے ترتیب لوگ قطار کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔۔۔ہاں نہ جانتے ہو? بھی بحیثیت قوم قطار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے کھڑے ہیں۔ہم انتظار کر رہے ہیں کہ کب ترقی کریں گے کب مہذب بنیں گے کب کشکول گدا?ی گلے سے اترے گا کب قرضوں سے چھٹکارہ حاصل ہوگا لیکن ہم اس حقیقت سے نا اشنا ہیں کہ گفتار کے غازی کبھی کردار کے غازی نہیں بن سکتے۔دنیا میں جس نے ترقی کی ہے اس نے کام بھی کیا ہے معاشرے کی تباہی ان لوگوں خاص کر ان ذمہ داروں اور بڑوں کے ہاتھوں آتی ہے جو ہر قسم کی برا?ی کا مرتکب ہوتے ہیں ان کیپاس قوم کی بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں مگر وہ ان کی پرواہ نہیں کرتے۔آج ہماری پوری قوم بڑی طرح قطارمیں کھڑی ہے۔جس کا چولہا بجھ گیا ہے بچے بلک رہیہیں ان کی جان پہ بنی ہے وہ ایک کلو اٹا ملنے کی امید میں قطار میں کھڑا ہے اس کی باری آتی ہی نہیں وہ کچلا جاتا ہے وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔زندگی جہد مسلسل ہے ایک کے گھر میں گیس نہیں چولہا جلتا نہیں وہ قطار میں کھڑا ہے۔ایک مزدوری کے ل? گھر سے نکلتا ہے قطار میں کھڑا ہے کسی سے دیہاڑی مل جا? دیہاڑی لگا? اور شام کو بچوں کی بھوک کا مداوا کرسکے۔ایک انصاف ملنے کے انتظار میں قطار میں کھڑا ہے دہا?ی کو?ی سنتا ہی نہیں۔۔۔ ایک روزگار ملنے کے انتظار میں ہے یہ قطار بڑھتی ہی جاتی ہے گھٹتی نہیں عمریں بیت جاتی ہیں باری آتی نہیں۔بحیثیت قوم ہم دنیا کے اقوام کی قطار میں کھڑے ہیں یہ قومیں آگے ہی بڑھتی چلی جاتی ہیں ہم مزید پیچھے آتے ہیں انصاف کے لحاظ ہماری قطار میں نمبر اتنا پیچھا ہے کہ شاید کو?ی ایک دو ممالک ہوں جو ناانصافی میں ہم سے پیچھے ہوں ہمارے دارالعدل کی بڑی بڑی عمارتیں ہیں ان میں بیٹھے کالی شیروانیوں میں ملبوس ججز لاکھوں کی تنخواہ اور کروڑوں کی مراعات لے رہے ہیں ان عمارتوں کے اندر ساری سہولیات موجود ہیں البتہ انصاف کی سہولت موجود نہیں ہم ان کے باہر انصاف کے حصول کے لی? قطاروں میں کھڑے ہیں۔صحت ہر ایک کا ذاتی مسلہ کتنے کراہتے جسم ہسپتالوں کلینکوں اور میڈیکل کامپلکس اور سنٹروں کے باہر قطار میں کھڑے ہیں ان کی باری آتی ہی نہیں۔کتنے مجبور و بے نوا بینکوں کے باہر چیک وصول کرنے کے انتظار میں کھڑے ہیں لیکن کو?ی چور دروازہ ہوگا وہاں سے لوگ دھڑادھڑ اپنے پیسے لیتے نکل رہے ہونگے۔کتنے مزدور ٹھیکدار کے آنے کے انتظار میں ہیں کہ ان کی مزدوری ان کو ملے۔کتنے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر پہ آس کی نگاہیں جما? بیٹھے ہیں کتنے احساس پروگرام کا خواب آنکھوں میں سجا? بیٹھے ہیں کتنے پیکیجز اور امداد کے سہنرے خواب دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ اقتدار کے بھوکے اگلے الیکشن اور پروموشن کے منتظر اگلی ترقی کی امید لی? جی رہے ہیں۔ہماری قطاروں پہ افسردگی چھا?ی ہو?ی ہے ہمارے انتظار کربناک ہیں ہماری باری تھکا دینے والی ہے ہمارے لی? کسی مقصد کا حصول ناممکن ہے۔بس ہم قطار میں کھڑے ہیں۔میں یوٹیلٹی سٹور میں گھی خریدنے پچھلے دو گھنٹوں سے قطار میں کھڑا ہوں ٹانگیں سن ہورہی ہیں اتنے میں میرے سامنے والے بندے نے مجھ سے پوچھا ہے کہ بھا?ی تمہارا ”کوڈ“ نمبر کیا ہے میں حیران ہوتا ہوں کہ خریداری کے لی? کو?ی ”کوڈ“چاہی? ہوتا ہے وہ طریقہ کار بتاتا ہے میں مایوس قطار سے نکلتا ہوں اب ”طریقہ کار“ کے پیچھے پڑتا ہوں کو?ی پانچ ہزار کا چیک ہاتھ میں لیے میں پیسے لینے کے بعد انکے استعمال پر غور کر رہا ہوں صبح آیا ہوں شام آرہی ہے میری باری نہیں آرہی اتنے میں اعلان ہوتا ہے بنک بند ہوا۔۔۔۔کل آنا۔۔۔میں ڈاکٹر کے آفس کے سامنے قطار میں کھڑا ہوں مریض کے سینے میں شدید درد ہے میری باری نہیں آتی۔۔۔ٹی وی پر انصاف فلاح اور عوامی سہولیات کی باتیں ہیں۔دوپہر کا کھانا مرضی سے ارڈر پہ کھا کے رہنما آیا ہے خوب بن ٹھن کے آیا ہے آٹا بحران کی باتیں کر رہا ہے اٹھلا اٹھلا کے تبصرہ کر رہا ہے۔اس کے محکمے میں اربوں کی کرپشن ہو?ی ہے وزیرموصوف اپنی صفای?اں دیرہا ہے گویا کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔بڑے بڑے عہدے دار پنشن لے کے کروڑوں کی مراعات کے ساتھ ملک سے باہر ہیں اساتذہ،فوج کے، پولیس کے سپاہیوں اور معمولی سرکاری نوکروں کے پنشن کے چند ہزار روپے قومی خزانے پر بوجھ ہیں ان کو اصلاحات کے نام پر ختم کرنے کی باتیں ہیں۔قوم کے نما?ندے جا?دادیں بنارہے ہیں ملک کا کباڑہ ہوا ہے کسی کو کو?ی پرواہ نہیں۔چمکتی ہلتی کرسیاں ہیں شاندار عمارتوں کے اندر موج مستیاں ہیں۔قومی نما?ندے بھیک مانگ رہے ہیں دنیا کہتی ہے کہ یار ذرا کرپشن بند کرو کب تک بھیک مانگتے رہوگے۔۔امداد کی رقم آ? گی ہم اسی طرح قطاروں میں کھڑے رہیں گے۔۔۔۔۔اگر ہماری تھوڑی سی جاگ اٹھے ہم تھوڑی خوف خدا اور خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہوجا? تو یہ قطاریں یہ کربناک انتظار کے لمحے یہ لاپرواہیاں یہ تجاہل عارفانہ یہ سب کچھ ختم ہو جائینگے ہم ایک دوسرے کا درد محسوس کریں گے اللہ کرے ایسا ہو۔۔غریبی ہمیں کچل رہی ہے اور امیری دھول بن کر امیروں کی انکھوں میں پڑ رہی ہے ہم بے بس ہیں جنبہ داری ہماری پہنچ سے دور ہے وہ ہوش میں نہیں جنبہ داری کیا کریں گے۔۔۔۔