اندھتی کے مرد قلندر۔۔۔تحریر۔۔۔۔ مبشرالمللک۔۔۔۔درویش خدا مست۔

Print Friendly, PDF & Email

اندھتی کے مرد قلندر۔۔۔تحریر۔۔۔۔ مبشرالمللک۔۔۔۔درویش خدا مست۔

میتار ژاو امیر الدین مرحوم۔۔۔۔ ایک شعلہ بیاں مقریر۔۔۔۔ بے باک داعی اسلام۔۔۔ بے ہنگام مرد مجاہد۔۔۔ درویش خدا مست۔۔۔ انسان آخر اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ اللہ مغفرت اور اعلی مقام نصیب فرمائے۔مرحوم 80ء سال کو چو رہے تھے۔اگرچہ جسمانی خدوخال میں کچھ تبدیلی اچکی تھی مگر۔۔۔ جذبہ ایمانی۔۔۔ کا۔۔۔ جن۔۔۔ اب ھی سر چھڑ کے بول رہا تھا۔خوشی اور غمی کے مواقع پر۔۔۔ دنیاوی لحاظ سے خود کو بڑے لوگ سمجھنے والے ہمیشہ اس سے خود کو بچائے رکھتے۔ کیونکہ۔۔۔ اس۔۔۔ مرد قلندر۔۔۔ کو بڑوں کی کوئی ادا ناز یا بات پسند نہ آتی تو بھری محفل میں غرور کے بت کو پاش پاش کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔۔اس قسم کے کیی واقعات کا میں خود بھی گواہ رہاہوں کہ اس نے خاندان کے بڑوں اور سرکاری افیسرز کو ہاتھ جوڑنے پر مجبور کیے رکھا۔بعد میں لوگ اپنا برم رکھنے کے لیے کانا پھسی کرتے کیا جواب دیں۔۔۔۔ دیوانہ۔۔۔ ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ انگریزی تہزیب سے متاصر لوگ۔ کوٹ پتلون کو۔۔۔۔ ڈیکی میو?۔۔۔ ریپھی میک شہزادگان ان کا طنزیہ جملہ ہوتا۔۔۔ اے کے ار ایس پی کے فلاحی کاموں کے سخت مخالف تھے۔
سومیک میتار ژاو۔
امیر الدین مرحوم۔۔۔۔ میتار ژاو سعادت سیر کے نوانسے اور میتار ژاو سیف الدین عرف مومیکو کے فرزند تھے۔
میتار ژاو سعادت سیر مہتر چترال شاہ امان الملک کے فرزند۔ کمانڈر میتار ژاواسفندیار دنین، میتار ژاو افرسیاب کوغذی اور میتار ژاو فرامردخان شیشی کوہ کے ماں شریک بھائی تھے۔ میتار ژاو سعادت سیر کی رضاعیت سوما ورشیگوم میں ہوئی تھی اور اسی نسبت سے اسے۔۔۔۔ سومایک میتار ژاو۔۔۔ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
شاہ امان الملک۔۔۔۔ نے اپنی زوجہ کو مغلاندہ چترال میں دس چکورم عراضی خصوصی طور پر مہربانی کی تھی۔بعد میں اس نے اس زمیں کو اپنے فرزند سعادت سیر کو ھبہ کیا مگر گردش زمانہ۔الحضزرت شجاع الملک نے وہ زمیں کسی اور کو مہربانی کی تو کمانڈر اسفندیار نے اس پر سخت احتجاج بھی کیا۔
میتار ژاو سعادت سیر ایک قناعت پسند،درویش صفت اور صوفی منیش انسان تھے۔اور اسی مزاج کے سبب برصغیر کے دور دراز علاقوں سے لیکر وسط ایشیاء بغداد تک کے۔۔۔ ملنگ و قلندر ان کے ہاں ٹھرتے اور اسفار زیارات کے لیے نکل جاتے اس دور کی یادگار نشت گاہ۔۔۔ مالگانان نخ۔۔۔ اب بھی اندھتی کی پہاڑی میں موجود ہے۔
اندھتی قدیم شاہی دور سے ہی۔۔۔۔ شکار گاہوں۔۔۔ میں اپنا ثانی نہیں رکتھا۔یہاں مار خور۔۔۔ تیتر چوکور اور ٹروٹ مچھلی اور مرغابیوں کا شکار مشغلے کے طور کیا جاتا رہا ہے۔
آدم خور کا قلعہ۔
چترال کے مشہور کٹور مہتر آدم خور کا بنایا ہوا قلعہ یہاں واقع تھا اب بھی اس کے کچھ آثار اور ایک مینار خستہ حالت میں موجود ہے۔ میتار ژاو سعادت سیر کی اولاد اس آدم خوری قلعہ کے اردگرد آباد ہیں۔
دریا ارکاری کے۔۔۔ لت و پت۔۔۔ اور۔۔۔ جہاں تباہ۔۔۔ موجوں اور۔۔۔ ہرے۔۔۔ جیسے شفاف۔۔۔ شہد۔۔۔ جیسے میٹھے دریا لٹکوہ کے کنارے آباد یہ چند گھرانوں پر مشتمل یہ وادی ہر مہمان کے لیے گلدستے سجائے اور گھروں کے دروازے وا کیے رہا ہے۔آج بھی سال بھر یہاں مہمانوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔یہاں کے برادری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جس گھر میں مہمان اجائے تمام گھروں سے اپنے اپنے کھانے لیے میزبان کے دسترخوان کو سجاتے ہیں۔اسطرح ایک ہی نشت میں۔۔۔ کوڑو۔ اڑی۔ٹروٹ اور بھی بہت سے روایتی طعام کھانے کو ملتے ہیں۔
صحبت صالح۔
قسمت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ۔۔۔۔ صحبت قلند۔۔۔ نے کام دیکھا دیا۔۔۔۔ حشیشین۔۔۔اور ملنگوں کی آوبھگت اور جھرمٹ میں رہتے رہتے۔۔۔ میتار ژاو سعادت سیر بھی سیر ہوکے۔۔۔ دنیا داری اور رموز جہاں بانی سے نا اشنا ہوتے گیے۔ شاہی جاگیر اور کارندوں کی کمی نہ تھی مگر یہ اس شعر کے مصداق
؁ قطرہ طلب کرے تو سمندر اچھال دے
زندگی کے آیام گزاتے رہے۔ اور 1942ء میں انتقال کر گئے۔ ان کے صاحبزادے غلام النبیاء عرف صوفی۔عبداستار عرف بابیل۔ عمر یار عرف دور اور سیف الدین عرف مومیکو میتار ژوان شامل تھے دختران میں باغ و بہار شخصیت رحمان دیار میتار ژاو مرحوم دنین کی زوجہ اور زوجہ حاجی محمد خان شیشی شامل تھیں۔ یہ مہتر چترال ناصر الملک کا دور تھا۔اس نے اندھتی کے ناگفتہ بہ حالات دیکھ سیف الدیں اور محمد یار کو چترال اسکاوٹس میں بھرتی کرائے اور وہ صوبیدار کے عہدے پر تعینات رہے۔
مرد مومن۔

مرحوم امیر الدین۔۔۔۔ ڈی سی افس میں ملازم رہے۔بے باکی ان کی ضرب مثل مانی جاتی ہے گرمی کے سیزن میں جوانی میں ہمیشہ۔۔۔ جلال۔۔۔ میں رہتے۔ ہم نے کئی مرتبہ۔۔۔ پریڈگراونڈ۔۔۔ میں فٹ بال کے دوران ڈول بجانے پر اسے شاہی مسجد میں گھس پر لوڈاسپیکر پر۔میتار ناصر الملک کو پریڈ گراونڈ شاہی مسجد کے قریب بنانے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی پولیس کو ڈول اور بجا خانہ بجانے پر کئی مرتبہ۔۔۔ صلواتیں مو منانہ انداز میں سناتے دیکھے ہیں پھر پولیس مسجد میں گھس جاتی اور۔۔۔ مردحق۔۔۔ کو حوالات کی راہ دیکھا دیتے۔ مرحوم پہ اکثر۔۔۔ بزرگی اور کرامات۔۔۔ کا جن بھی سوار رہتاا۔ایک مرتبہ ایڈوکیٹ جاوید کی شادی کے موقع پر اس نے ہر ایک سے بعض و مباحثے کے دوران یہ دعوی کیا کہ میں۔۔۔ ولایت۔۔۔ کے اس مقام پر فایز ہوں کہ۔۔۔ انگارتان مہ نو پلیران پیسہ مہ سوم کیاغ بومیان کھمانڈرو اولاد۔۔۔۔ جٹ سے برادر بشیر نے ماچس کی تیلی جلائی اور اس نے ہتھلی آگ کے اوپر رکھ دی اور ولایت کے نشے میں ہاتھ جلنے کو برداشت کیے رہا۔ مگر اف تک کی بلکہ اڑے رہے۔ اسی موقع پر چپاڑی سے ہمارے ایک محترم میکی مرحوم۔۔۔۔ اسمعلیت اور سنی۔۔۔ کے پسندیدہ بحث لیے مرحوم بابا حاجی خان اور کلکڑ غلام جیلانی کی سنگت میں عروج کی بلندیوں پر محو پرواز تھے کہ مرد قلبدر کے ریڈار پہ
اگئے اپنی جگہ سے۔۔۔ جلال۔۔۔ میں اٹھے اور چیخ کر کہا حکیم۔ نماز نیست روزہ نیست زکوت نیست حج نیست۔۔۔۔۔ بس علی علی ھست این مخول نیست
بابا کلیٹر اس زور سے قہقہ لگایا کہ براتی حیران رہ گئے۔
اس سال مارچ مینے میں شکار کی غرض سے اندھتی جانا ہوا تو ان کے دولت کدے پہ ٹھرنے کو ہم نے ترجح صرف اس سے گپ شب کے لیے۔۔۔ میکی شاہ جہان اور عزیز الملک بھی ساتھ تھے رات مرحوم نے ہمیں مست کیے رکھا۔۔۔۔ بتایا اس بے ہنگام شعلہ بیانی اور انگار جیسے مزاج نے ہمیشہ مجھے ازمایش کا شکار کیے رکھا۔۔۔۔ مگم تہ میکی تھینیشکو کورا بومان۔صدا لا الہ الا اللہ لگاتا ہی رہا۔میں اسمعلیی ایریے میں۔۔۔۔ اکیلے دعوت دین کا پیغام پہنچانے کے لیے۔۔۔ ایک مرتبہ۔۔۔ پتھک۔۔۔ کے موقع پر مومی میں مردو خواتین کے ایک مخلوط محفل میں۔۔۔ نزول۔۔۔ کیا اور حق بیان کی تو ایک شخص نے مجھ سے کہا میتارژاو۔۔۔ گ? چکوسی۔۔۔ تو کی جیت ہو اوہ سنی بوم۔۔۔۔ میں نے گشتی کے چلچ کو یہ کہہ کر قبول کیا کہ میں حق کا پیام بر ہوں یہ۔۔۔ ارکاریوغ۔۔۔ مت کیہ بومان۔۔۔ رستم و سہراب کی یاد میں نے تازہ کردی لیکن اس بندے نے۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ اسنے بومتو ہ? برائی کی سف کیمریان مہ سورا ہوستانی۔
دوران ملازمت۔۔۔۔ افسرز اور دیگر عملہ۔۔۔۔ ہاتھ گرم۔۔۔ کراتے اور۔۔۔ بوینت کھاتے۔۔۔ تو میں جنگ بازار مسجد میں جاکر ان کے خلاف تقریرں جھاڑ دیتا ان۔۔۔ ناہنجاریوں۔۔۔ کی پاداش میں تہ میکیو۔۔۔بیشیر جوش دفہ۔۔۔ سسپنٹ ارینی۔ آخر تنگ اکر ڈی سی صاحب نے مجھے جبری طور پر ملازمت سے فارغ کیا۔
* پشاور کی سیر۔
ایک مرتبہ پشاور جانے کا اتفاق ہوا تو۔۔۔۔ قلعہ بالحصار۔۔۔ کی سیر کو جی چاہا تو اس کے مرکزی دروازے پر پہنچا تو دیکھا کہ اسکاوٹس کے جوان بندوق تانے پہرا دے رہے ہیں۔ میں بے خطر اندر جانے لگا تو وہ چیختے ہوے مجھے پکڑ لیے اور مارنے لگے۔میں نے ان سے کہا بدبختو۔۔۔۔ یہ قلعہ میرے۔۔۔۔ بپ اکبر بادشاہ۔۔۔ نے بنایا ہے اور اس کے دروازے میرے لیے بند ہیں۔ وہاں سے نکل کر اسمبلی حال پہنچا تو دروازے پر وہی سلوک روا رکھا گیا میں مال روڈ پہ اکے۔۔۔ انگریز کی۔۔۔ جمہوریت کی دھجیان اڑا کے رکھ دیں اور شریعت اسلامیہ کا مطالبہ کیا ممبران کو روس کا ایجنٹ کہا اور وزیر اعلی کو گالیوں کا تحفہ ارسال کیا پولیس نے مجھے بھاگا دیا تو ہائی کورٹ پہنچا تو ہائی کورٹ کے صحن میں رشوت اور نا انصافی اور انگریزی قانون اور ججوں کی۔۔۔۔ پھیروال۔۔۔ شہباز گل کی طرح اتار دی تو یہاں بھی پولیس نے گل دستے عنایت کرکے باہر پھنگ دی۔ اچانک قریب ہی گھوڑے دو پاوں اٹھائے مجھے نظر آئے میرا تجسس بڑھا قریب جاکے دیکھا کہ ایک بڑا گھر ہے اور فوجی سپاہی کھڑے ہیں میں نے۔۔۔ ڈانڈے۔۔۔ سے گھوڑے کو مارا تو وہ پتھر کے نکلے ساتھ۔۔ مجسمے۔۔۔لگے تھے میں۔۔۔ مومنانہ جذبات۔۔۔ میں ان کے منہ پر۔۔خاک۔۔۔ مل دی جواب میں فوجی سوغات ملے میں نے ایک بے گناہ کو مارنے پر فوجیوں کو۔۔۔ مشرقی پاکستان۔کشمیر اور فلسطین میں غیرت دیکھانے کا درس دیا۔۔پتہ چلا یہ کورکمنڈر ہاوس ہے۔ دوپہر کو چیرگانو چوک پہنچا تو۔۔۔ غفار خان۔۔۔ کا مجسمہ نظر آیآ میں نے راہ پڑے۔۔۔ بنگن۔۔۔ کے ٹکڑے اٹھائے اور۔۔۔ سرحدی گاندھی۔۔۔ کاحلیہ بگاڑ کے رکھ دیا۔تو لوگوں نے میری مرمت کی۔ یہاں سے قریب ہی ایک عمارت میں بڑے بڑے خواتین اور مرد کے فحش تصاویر۔۔۔ دیکھتے ریڈار پہ آئے تو دیوانہ وار سینما میں گھسا تو میوزک زور کی بج رہی تھی اور لوگ۔۔۔۔ دنیا تونج۔۔۔ تصاویر دیوار پہ لگے دیکھ رہے تھے میں ان کو ڈنڈے مارے اور تصاویر پھاڑ دیں۔لوگ دیوانہ دیوانہ پکار کر بھاگنے لگے اور پولیس نے مجھے پکڑ کر حوالات کی سیر کرائی اور کسی چترالی حوالدر نے جان خلاصی کراوئی۔اس مارا ماری میں دن ڈھل گیا تو عجایب گھر کی سیر کو گیا ٹیکٹ لیا اندر داخل ہوا تو۔۔۔۔ بت ہی بت نظر آئے۔۔۔۔ میں باری باری ان کے سروں پہ۔۔۔۔ ضرب امیری۔۔۔ لگایا اور ان کے منہ پر۔۔۔ تھوکتا۔۔۔ رہا۔ لوگوں نیمجھے پکڑا تو بتوں کی چوکیداری پر ان پہ۔۔۔ لعنت۔۔۔ برساتے انسو بہاتے باہر نکلا۔۔۔ دیکھا تو ایک خوبصورت محل نظر ایا پوچھا تو پتہ چلا۔۔۔۔ مغلوں کا مہمان سرائے ہے تو چور چور جسم کے ساتھ کراہتے ہوے۔۔۔ سراے میں داخل ہوا۔۔۔ شومی قسمت۔۔۔۔ یہاں بھی ٹھرنے کی اجازت نہ ملی۔تو اپنا تعارف بھی کروایا کہ میں مغل ہوں اس سراے کے مالک کا رشتہ دار ہوں مگر سب قہقہے لگانے لگے میں سیڑیوں پہ کھڑے ہوکر ایک جوشیلہ تقریر کی۔۔۔۔ عملے کے لوگ لطف اٹھاتے رہے ناگہان ایک افیسر وارد ہوا اور مجھے پکڑوا کے باہر نکال دیا۔
طوالت کے سبب اسی پر گزارہ کرلیں اس مرد درویش کے اور بھی بیباک دیوانہ پن ہیں پھر کھبی صہیع۔اس کا۔۔۔ جماعت اسلامی۔۔۔ سے۔۔۔ دلبرانا لگاو۔۔۔ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔کاش اس جیسے اور بھی۔۔۔ دیوانے۔۔۔ جنم لیتے تو۔۔۔ نفاق۔۔۔ کی دنیا دم توڑ جاتی۔چند سال پہلے ان کے فرزند آرمی میں شہید ہوے۔ ایک اور فرزند ایجوکیشن سے وابسطہ ہیں۔۔۔ اندھتی کے بہت سے رنگ ہیں اب میکی فراز اور گورنر جبیب اور میکی مختار ہمارے لیے۔۔۔ مشقولگی۔۔۔۔ کے زرایع رہ گیے اللہ انہیں سلامت رکھے۔۔۔۔
طوالت پر معزرت۔۔۔۔ حقیرو فقیر