دادبیداد۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔۔مصطفی پشوری

Print Friendly, PDF & Email

دادبیداد۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔۔مصطفی پشوری
حاجی غلام مصطفی کوگاؤں میں پشوری کہا جاتاتھا لیکن وہ خود پشاور میں اپنا نام غلام مصطفی تریچوی لکھتے تھے اور یہ گاؤں کی نسبت سے اختیار کیا ہوا نام تھا گرمیاں گذارنے گاؤں گئے تھے بیمار ہوئے تو ان کو پشاور لایا گیا پشاور میں وفات پائی اور وزیرباغ کے چترالی قبرستان میں دفن ہوئے پشاور میں انہوں نے زندگی کے60برس گذارے،وطن کو نہیں بھولامگر پشاورکو دل سے لگایا آخر پشاورکی مٹی نے ان کے لئے اپنا سینہ چاک کیا اور ان کو اپنے سینے میں جگہ دی حاجی غلام مصطفی چترال میں وادی تریچ کے خواجہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ان کے والد گرامی محمد یعقوب خان خواجہ سابق ریاستی نظم ونسق میں ریونیوافیسر یعنی چارویلو کے عہدے پرفائز تھے اُس زمانے میں تعلیم عام نہیں تھی میٹرک کے بعد نوجوان کو گھر سے بلاکر ملازمت دی جاتی تھی غلام مصطفی کوبھی میٹرک کے ساتھ ہی سکول میں ٹیچر کی پوسٹ دے دی گئی دوسال بعد آپ نے استعفیٰ دے کر مزید تعلیم کے لئے پشاور کا رخ کیا،پشاور میں گریجویشن کرنے کے بعدسول سکرٹریٹ میں اسسٹنٹ بھرتی ہوئے ترقی کرکے سپرٹنڈنٹ سیکشن افیسر اور ڈپٹی سکرٹیری بنے،چند سال محکمہ اوقاف کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔2008میں ملازمت سے ریٹائرہوئے2ستمبر2022کو 74سال کی عمرپاکر راہی ملک عدم ہوئے۔پشاور میں غلام مصطفی تریچوی تھے گاؤں والوں کے لئے مصطفی پشوری تھے۔مرحوم انسانی معاشرے میں بشری صفات اور خوبیوں کا مرقع تھے۔ان کا6فٹ سے کچھ اوپر قد،کشادہ پیشانی،ہنستا مسکراتا چہرہ ہرایک کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا میں 1971ء میں پشاور آیا تو مصطفی صاحب طالب علم تھے اپنے استاد پروفیسرٹھاکرداس کی خوب تعریف تھے اور ساتھ ساتھ ملٹن،ورڈزورتھ اور کیٹس کی انگریزی نظمیں ٹھاکر داس کے انداز میں گاکر ہمیں محظوظ کرتے تھے،اس دور میں دو اور دوستوں کو ساتھ ملاکر انہوں نے پشاور میں طالب علموں کی مدد اور بے روزگاروں کو بیرون ملک روزگار دلانے کے لئے اتحاد چترال پاکستان کے نام سے تنظیم بنائی اللہ بخشے ان میں حاجی محمد سلیم2020ء میں فوت ہوئے،حاجی ظفرعلی شاہ2021میں انتقال کرگئے حاجی مصطفی پشوری نے اس سال داربقا کا سفر اختیار کیا۔سماجی ترقی کے لئے آپ کا ذوق وشوق دیدنی تھا اس لئے سیاسی کارکن اور قومی نمائندے آپ کی رہنمائی کے طلبگار رہتے آپ انگریزی اور اردو میں درخواستیں،اسمبلی کے سوالات اور اخباری بیانات لکھ کر ان کے دستخطوں سے آگے پہنچادیتے وہ سب کے اعزازی سکرٹری تھے اور ان کے ذہن رسا میں چترال اور پشاور میں مقیم چترالیوں کے مسائل پربے شمار تجاویز ہروقت گردش کررہی ہوتی تھیں وزیرباغ کے قریب چترالی قبرستان کے لئے آپ نے میراحمد بلبل اور حاجی عظیم کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔آج تینوں اس قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔آپ کی عادتیں وکھری ٹائپ کی تھیں،دنیاداری،مال وزر کی ہوس اور خوب سے خوب تر کی حرص آپ کو چھوکر نہیں گذری تھی غصہ کا عنصر آپ کی فطرت میں نہیں تھا دوستوں اور ساتھیوں نے کبھی آپ کو غصے میں بڑبڑاتے نہیں دیکھا،آپ کو کسی کی بات یا حرکت پربہت زیادہ غصہ آتا تو مسکراکر ٹال دیتے1970اور1980کے عشروں میں کمپیوٹر نہیں آیاتھا،سرکاری خط وکتابت میں غلطی ہوجاتی تو دوبارہ ٹائپ کرنا پڑتا تھا آپ کا اسلوب یہ تھا کہ ڈرافٹ میں غلطی کی نشاندہی کرنے کے بعد ٹائپسٹ سے مشورہ لے لیتے بیٹا اس کو دوبارہ ٹائپ کرنا پڑے گا بتاؤ تم کروگے یا میں کرلوں؟ٹائپسٹ کہتا سرکیوں شرمندہ کرتے ہو میں یہاں کس لئے بیٹھا ہوں،دوستوں کے حلقے میں اکثر یہ بات چھڑجاتی تھی کہ آپ کے والد صاحب چارویلو تھے آپ اپنے نام کے ساتھ چارویلو کیوں نہیں لکھتے؟مصطفی صاحب دوستوں سے پوچھتے کیا سیکشن افیسر یاڈپٹی سکرٹری کا بیٹا گھربیٹھے یہ نام اپنے نام کے ساتھ لگاسکتاہے؟ہم کہتے نہیں،وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے پھر جو عہدے نصف صدی پہلے ختم ہوئے کسی کی اولاد ان عہدوں کو کس طرح اپنے نام کاحصہ بناسکتی ہے؟معاملات میں کھرے اور سچے تھے۔یہاں تک کہ دوستوں نے انہیں کسی بھی حال میں سچائی پر سمجھوتہ کرتے نہیں دیکھا۔ان کی اولاد میں ڈاکٹر ہارون،ہمایون اور واجد حیات ہیں۔بیٹی میونسپل کالج میں لیکچرار ہیں۔اللہ ان کوغریق رحمت کرے اور اولاد کوسلامت رکھے۔