داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔مو سم اور سیلا ب

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔مو سم اور سیلا ب

مو سم اور سیلاب کا چولی دامن کا ساتھ ہے گرمیوں کے مو سم میں برف پگھلتی ہے، برف زار پکھلتے ہیں ندی نا لوں میں طغیا نی آتی ہے تو دریا وں میں سیلاب آتا ہے موسم کی بھی دو قسمیں ہیں سیلاب کی بھی دو قسمیں ہیں ہم نا شکر انسان، نا شکرے بندے جلدی بھول جا تے ہیں کہ کل کیا تھا اور آج کیا ہے؟ مو سم جب قدرت اور فطرت کے اصولوں کے مطا بق بدلتا ہے تو ہر چیز اپنی جگہ رہتی ہے پا نی کو غصہ نہیں آتا، دریاوں کا جو بن صرف مستی دکھا کر گذر جاتا ہے، ندی نا لوں کی مستی مخص اٹکھیلیاں کھیل کر گذر جا تی ہے پہاڑوں کے مکین اور میدانوں سے پہاڑوں کا رخ کر نے والے سیاح اس کا لطف اٹھا تے ہیں مگر مصیبت اُس وقت کھڑی ہو تی ہے جب انسان نا شکر ا بن کر فطرت کے اصولوں سے کھلواڑ شروع کر تا ہے جنگلات کو کاٹ کر پیسہ بنا تا ہے پہاڑوں پر سبزہ نظر آئے تو اُس کو روند ڈالتا ہے، پہاڑوں کے صاف ستھرے ما حول کو شہروں کے پلا سٹک سے بھر دیتا ہے سبزہ زاروں میں گند پھیلاتا ہے اور فطرت کے مخا لف سمت میں غرور و تکبر کے گھوڑے دوڑا تاہے تو مو سم اپنے حال پر نہیں رہتا ہے باران رحمت کے رحمت پہلے حر ف پر نقطہہ لگ جا ئے تو ”زحمت“ بن جا تا ہے یہی زحمت آبادیوں کو مسمار کر دیتی ہے اور دلوں کوگھا ئل کر دیتی ہے آج ہم اس زحمت کے مارے ہوئے ہیں برباد سڑ کوں اور پلوں کا رونا روتے ہیں آب پا شی اور آبنو شی کی سکیموں سے محروم ہو کر اپنی قسمت پر ما تم کرتے ہیں، سیلاب بھی دوقسموں کے ہو تے ہیں ایک میدا نی علا قوں کا سیلا ب ہے جہاں دریا کی سطح بلند ہو کر گھر وں میں گھس جا تی ہے لو گوں کو محفوظ مقا مات پر منتقل کیا جا تا ہے دریا کی سطح گر جا ئے تو لوگ واپس آکر گھروں میں بس جا تے ہیں دوسرا سیلاب پہاڑی علا قوں کا ہو تا ہے جو پہاڑوں سے مٹی کے تو دے اور پتھروں کے ریلے بہا کر لا تا ہے ہنستی بستی بستیوں کو اجا ڑ کر دریا میں پھینک دیتا ہے، سیلاب کا ریلہ آنے سے 20سکینڈ پہلے ہوا کا سنگین ترین دباؤ آجا تا ہے جس کو ”باول“کہتے ہیں اس ہوا میں 60فٹ اونچے درخت اور 10فٹ اونچے مکا نا ت روئی کے گا لوں کی طرح اڑ جا تے ہیں مٹی، پتھر اور پا نی کا ریلہ 10سیکنڈ بعد آکر زمین کو بہا لے جا تا ہے، یہ درخت، یہ گھر یہ سڑک اور یہ پل دوبارہ اپنی جگہ نہیں آسکتے، پہاڑوں میں سیلاب کا مطلب تبا ہی، بر بادی اور قیا مت ہے اس سے کم نہیں، جو مٹی، پتھر، لکڑی اور عمارتی سا مان از قسم سریا سیمنٹ وغیرہ اس طرح کے سیلا ب میں بہہ کر دریا کے ساتھ میدانی علا قوں میں پہنچتے ہیں تو پا نی کے بڑے ذخیروں، ڈیموں، بیرا جوں، نہروں اور دیگر سہو لتوں میں رکا وٹیں پیدا کر تے ہیں جگہ جگہ دریا کے بہاؤ کو روکتے ہیں ڈیموں کو ریت اور پتھروں سے بھر دیتے ہیں جو تبا ہی سیلا ب نے پہاڑی وادیوں میں پھیلائی تھی اس سے 10گنا زیا دہ بر بادی میدا نوں کے مقدر میں آتی ہے آب پا شی سے لیکر آبنو شی تک ہر سہو لت، چھین لی جا تی ہے اس لئے دنیا میں ایک اصول وضع کیا گیا ہے دریا ئے امیزوں دریا ئے یا نگسی، دریا ئے نیکر اور دیگر مشہور دریا وں کی گذر گا ہوں پر میدانی علا قوں سے ٹیکس لیکر پہا ڑی علا قوں کی تر قی، بہبودی اور سلا متی پر خرچ کیا جا تا ہے اس کو ”لو لینڈ بائی لینڈ ریلیشن شپ“ نشیبی اور بلند ی پر واقع علا قوں کا آپس میں تعلق کہا جا تا ہے، پہاڑی علا قے محفوظ رہینگے تو نشیبی میدا نوں میں قدرتی آفتوں کا نزول نہیں ہو گا تمہار ا امن وسکون میرے امن وسکون سے منسلک ہے اگر میرے سکون کو بر باد کر وگے تو تمہا را سکون بھی تباہ ہو جا ئے گا جدید سائنس میں مو جود ہ مو سم کو عالمی حدت (Global Warming) اور مو سمیا تی تغیر Climate Changeکے نا م سے یا د کیا جا تا ہے اس کا خلا صہ یہ ہے کہ ما حول میں زہریلے دواوں کے چھڑ کاؤ، مو ٹر گاڑیوں اور کار خا نوں کی چمنیوں کے دھوئیں سے بگاڑ پیدا ہوا ہے اس بگاڑ نے سورج اور زمین کے درمیان حا ئل حفا ظتی پردہ اوزون (Ozone) کو پگھلا کر باریک کر دیا ہے اور اس وجہ سے سورج کی کر نیں کسی پر دے کے بغیر زمین پر آپڑ تی ہیں تو زمین ان کر نوں کی گر می سے کا نپ جا تی ہے فطرت کے نظام میں خلل آجا تا ہے اس سائنسی نظریے کو 1400سال پہلے اللہ پا ک کی آخری کتاب قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ الروم آیت 41میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ”سن لو! خشکی اور پا نی میں انسان کے برے اعمال کی وجہ سے فساد برپا ہوا ہے تا کہ انسا نوں کو ان کے کر توتوں کی سزا ملے شاید وہ اپنے برے اعمال سے باز آجا ئیں“ آپ اگر اس آیت کے الفاظ پر غور کرینگے تو معلوم ہو گا کہ نسل انسا نی کی ما دی ترقی نے فطرت کے اصو لوں کے خلا ف اعلا ن جنگ کیا ہوا ہے، فطرت نے جنگل اگا ئے ہم جنگل کا ٹ ڈالے، فطرت نے کروڑوں مفید پر ندے اور کیڑے مکوڑے زمین پر بسائے ہم نے ان پر بارود اور بم گرایا زہر یلے دواوں کا چھڑ کاؤ کیا فطرت نے صاف ہوا دیدی ہم اس کو دھوئیں سے بھر دیا فطرت نے صاف پا نی کو راستہ دیا ہم نے اس کو آلا ئیشوں سے بھر دیا ان خیر مستیوں کا یہی انجام ہو نا تھا یہ مو سم اور سیلا ب فطرت کا انتقام ہے۔