دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔”میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے”

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔”میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے”
”میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے”
پاک سر زمین میرا مکان ہے۔۔۔میری دھرتی۔۔۔میری پہچان۔۔۔اس کی عمر73 سال سے کچھ مہینے اوپر ہو گئی۔۔۔یہ مکان تو ہماری پیدایش سے کئی سال پہلے بنا۔۔۔لیکن اس کو بنانے والوں کی قربانیوں کا عینی شاہد میرے گھر میں موجود میرے ابو تھے۔۔۔وہ اس کے بنانے والوں کی قربانیوں کے علاوہ ان کے”خواب“ بھی بتایا کرتے تھے۔۔ان کے خواب تھے۔۔۔ایک اسلامی فلاحی خوشحال آزاد اور ترقی یافتہ اسلامی مملکت۔۔۔ایک ”پرسکون گھر“ مٹی گارے کا صرف مکان نہیں۔۔73 سال عمر ہوگئی۔۔۔میرا مکان گھر نہیں بنا۔۔مکان کا اصل بانی کچھ عرصے بعد ہی اپنے خالق کے پاس چلے گئے شاید اس نے اپنے حصے کا کام کیا تو اٹھایاگیا۔۔۔پھر خواب ٹوٹنے کے بہت برے سلسلے شروع ہوئے۔۔ہم شکوہ کنان ہیں یہ مکان گھر بنتا۔اگر اس کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان امریکن بلاک میں شامل نہ ہوتا۔۔۔اس بے وفا خود عرض اور احسان فراموش دشمن نے ہمیں نقصان ہی پہنچایا۔۔ہمیں استعمال کیا اپنی مفاد کی خاطر ہمیں کباڑہ کر دیا۔۔ہم شکوہ کنان ہیں سکندر مرزا ملک غلام محمدآئی آئی چندی گڑھ سہروردی وغیرہ نے اس مکان کوگھر بنانے کی خاطر کچھ نہیں کیا اس کو ایک دستورتک نہیں دے سکے۔۔مایوسیاں بڑھیں محرومیاں بڑھیں یہاں تک کہ مارشل لاء لگا۔۔اس دوران اس کو گھر بنانے کی کچھ تو کوششیں ہوئیں کم از کم دار السلطنت بنا کم از کم کچھ ڈیمیں بنیں۔۔زرعی ترقی ہوئی لیکن شکوہ ہے کہ اس حکومت نے مکان بنانے والوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔۔اس کی ماں تک کو بے توقیر کیا۔۔ایک کامیاب جنگ لڑی لیکن زبانی جنگ کی میز پر شکست کھا گیا۔۔پھر فوجی کودیتا ہوا۔۔۔اس کو گھر بنانے کی سنجیدہ کوشش ہوتی۔مگر اس کے دوسرے پورشن میں دشمن اپنی چال میں کامیاب ہوا۔نفرتیں اور محرومیاں بڑھیں۔۔ہم نے ایک شرمناک جنگ لڑی۔۔۔دنیا کی تاریخ میں اتنی بڑی لڑاکو فوج کوشکست ہوئی۔۔فوج خود نہ جان سکی کہ اس کو کس کیساتھ لڑنا ہے اور کہاں لڑنا ہے۔۔وہ بے دست وپا ہوگئے۔۔۔اس کو گھر بنانے کا خواب یہاں ٹوٹ کر بکھر گیا۔۔جمہوریت آئی۔۔اُمیدسی پیدا ہوئی کہ مکان گھر بن جائے لیکن پھر وہ تاریکیاں آئیں کہ الامان۔۔۔مکان گھر نہ بن سکان۔۔۔مکین بے سکون۔۔خودعرض لالچی مفاد پرست۔۔۔اسلامی فلاحی اور آزاد ریاست کا خواب بے تعبیر۔۔۔یہ گھر کیسے بنے۔اس کے مکینوں کی خوشحالی شاید اس کے سر براہوں کوبھاتا نہیں یا تو ان کو اپنے کام سے کام ہے۔۔اس سے کم وسائل والے ملک گھر بن گئی۔۔جاپانی تباہ ہوا تھا۔۔کوریا کا نام و نشان نہ تھا۔۔ملایشیا ء اس کی پالیسیاں لے کے گیا وہ سب اشین ٹایگر بن گئے۔۔۔مکین خوشحال۔۔۔مکان گھر بن گیا جس کے اندر ہر چیز مہیا۔۔بھوک نہیں پیاس نہیں مجبوری بے روزگاری نہیں۔۔چوری ڈکیتی نہیں۔۔نفرت بعض کینہ نہیں زاتی مفاد عناد نہیں۔۔۔ایثار و قربانی اور خلوص و شادمانی ہے۔۔گھر کے مکینوں میں ڈسپلن ہے۔۔۔قانون ہے۔۔عدالت ہے۔۔۔انصاف ہے۔۔۔محبت احترام ہے۔۔۔میرے اقا میرا یہ گھر کیوں نہیں بنتا۔۔۔ہم نے اٹم بم تک بنائی۔۔۔ہمارے پاس بہادر لڑاکا فوج ہے۔۔۔ہمارے پاس سونا اگلتی زمین ہے۔۔ہماری ندیاں ابشار ہیں۔۔ہمارے پاس دریا سمندر ہیں۔۔ہمارے پاس معدنیات بھرے پہاڑ ہیں۔۔لیکن یہ مکان گھر نہیں بنتا۔۔۔دیکھو اس میں نفرت بھری غلیظ سیاست ہے۔۔۔حالانکہ کئی جمہوری سربراہ آئے لیکن تبدیلی نہیں آئی۔۔۔آئے روز وہی بے سکونی۔مہنگائی بیروزگاری۔بے چینی۔اس کے مکین منافقت کو سیاست کا نام دیتے ہیں اور ہر گھڑی نفرت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔۔اس کے مسائل کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔۔۔میرے آقا سات سال کی قلیل جد و جہد کے نتیجے میں یہ حاصل ہوا لیکن 73 سال میں یہ گھر نہیں بنا۔۔یہ ہو اس کے مکینوں کی نا اہلی ہے۔۔۔ہم اس کو سنبھال نہ سکے۔۔۔اقا اب کی بار اس کو کوئی پر خلوص مکین بیھجدے۔۔جویہاں کی مایوسیاں دور کردے۔۔۔تاریکیاں روشنیوں میں بدل دے۔۔۔
میرے مولا مجھے اتنا تو معتبر کردے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اسکوگھر کر دے۔۔