ضلع اپر چترال کا اعلان جو ایفا نہ ہو۔۔تحریر: فخر عالم

Print Friendly, PDF & Email

“اپر چترال ضلعے کا اعلان میں ابھی کرتا ہوں اور نوٹی فیکیشن میں جانے کے بعد تین دن کے اندر بھیج دوں گا جسے آپ مخالفین کے منہ پہ دے ماریں “،سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے جذبات کی رو میں بہتے ہوئے چترال کے پولو گراونڈ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا جس میں پارٹی کے قائد عمران خان بھی موجود تھے جبکہ اپر چترال کے ضلعے کا اعلان سننے کے لئے ایک جم غفیر جمع ہوگئی تھی۔ جواب میں مجمع نے پہلے تالیوں سے اور پھر نعروں سے چترال کی پہاڑوں میں ارتعاش پید اکردی جس سے کوہ ہندوکش کی سب سے بلند چوٹی تریچ میر میں بھی ہلچل پیدا ہوگئی تھی۔ یہ گزشتہ سال 8نومبر کا دن تھا اور وہ تین دن28دسمبر تک نہیں آئے جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں عام انتخابات کے پیش نظر نے حلقہ بندی کے لئے نئی ویلج کونسل سے ضلعے تک کسی بھی نئی انتظامی یونٹ کی تخلیق پرپابندی لگادی اور سب ڈویژن مستوج (سابق ضلع مستوج) کے عوام کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے جس کا خواب وہ کئی سالوں سے دیکھ رہے تھے اور 8نومبر کو تحریک انصاف کے جلسے میں یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھائی دے رہا تھاجبکہ چترال کی دردیواریں ضلع اپر چترال کے پوسٹروں سے بھر گئے تھے اور د ن رات وادی چترال اس نغمے سے گونج رہی تھی جوکہ اس موقع کے لئے چترالی زبان میں خصوصی طور پر بنوائی گئی تھی جس کے بول”شکریہ اے عمران خان۔پوراہونی ہرارمان”(شکریہ اے عمران خان!تو نے ہمارا سب سے بڑا ارمان پورا کردیا)اب بھی اہلیان چترال کے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اپنے اعلان کو ایفاکرتے ہوئے تین دن میں نہ سہی تین ہفتوں میں بھی ضلعے کا نوٹیفیکیشن جاری کرتے تو آج چترال میں احساس محرومی اس حد کو نہ چھو چکے ہوتے جہاں تک آج پہنچ گیا ہے جب 15ہزارمربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی چترال کو صوبائی اسمبلی کا صرف ایک حلقہ بنادیا گیا ہے جب چترال کے عوام گزشتہ دور میں صوبائی اسمبلی کی دو حلقوں کی بجائے تین کامطالبہ کررہے تھے۔ اہل سیاست کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے میں سنجیدہ ہر گز نہیں تھی اور پولو گراونڈ میں یہ اعلان محض جلسے کی کامیابی کے لئے ہجوم کا حجم بڑہانے کے لئے ہی کیا گیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی حکومت نے چترال میں قابل ذکر ترقیاتی کام شروع کرنے میں مکمل طور پرناکام رہی تھی اور 2015ء میں چترال میں تباہ کن سیلاب سے متاثرہونے والی انفراسٹرکچر کی بحالی میں مایوس کن کارکردگی اپنی جگہ ایک سوال ہے جبکہ اپر چترال میں واقع ریشن ہائیڈروپاؤر اسٹیشن (4.2میگاواٹ پیدوار کے حامل) کی بحالی کاکام شروع نہ کرنا اس حکومت کے دامن میں ایک سیاہ دھبہ کے طورپر موجود رہے گااور ابنوشی وابپاشی کی سہولیات، سڑکوں اور پلوں کی تعمیرنو غیر ضروری تاخیر برتنے سے عوام میں صوبائی حکومت کے خلاف شدید جذبات پید ا ہوگئے تھے اور ان حالات میں پی ٹی آئی کے لئے چترال میں قوت کا مظاہرہ کرنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھی اور رموز سیاست سے واقف لوگوں کی رائے یہ ہے کہ ضلعے کے اعلان کا شوشہ چھوڑنا مجمع اکھٹا کرنے ک لئے ہی تھا جس میں وہ کامیا ب ہوگئے۔یہ بات حیران کن ہے کہ ایک سال سے بھی کم عرصہ قبل وزیر اعلیٰ جب بونی دورے پر آئے تو اپر چترال سے صوبائی اسمبلی کے رکن سید سردار حسین شاہ نے اپر چترال کے اعلان کا واحد ایجنڈا ان کے سامنے پیش کیا جس پر انہوں نے دو ٹوک categoricallyکہا تھا کہ نئی ضلعے اس علاقے کوکوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے بلکہ اس کے غیر ضروری اخراجات میں اضافہ ہوگا لیکن اقتدار کے آخری چھ مہینوں میں وہ کون سی حالات پیش آئے تھے کہ ضلعے کاقیام ضروری ہوگئی۔
چترال اپنی وسیع رقبے اور جعرافیائی محل وقوع کے پیش نظر ریاست چترال میں چھ گورنریوں میں تقسیم تھی جن میں مرکزی چترال کے علاوہ موڑکھو، تورکھو، دروش، لوٹ کوہ اور مستوج شامل تھے اور قیام پاکستان کے بعد اسے دو اضلاع یعنی چترال اور مستوج میں بنادیا گیا اور 969ء میں جب اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیٰ خان اس کا انضمام صوبہ سرحد کے ساتھ کررہے تھے تو ضلع مستوج یعنی اپر چترال کا ڈپٹی کمشنر شہزادہ محی الدین صاحب تھے جوکہ بعد میں چار دفعہ ایم این اے، دو دفعہ چیرمیں ضلع کونسل، ایک دفعہ ضلع ناظم اور صوبائی و مرکزی حکومتوں میں وزیر بھی رہے۔ اپر چترال کے عوام ضلعے کے قیام کو اپنی تمام پسماندگی کا مداوا سمجھتے ہیں اور مختلف اوقات میں اس کے لئے تحریکیں اٹھتی رہی ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس دفعہ تو ان کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ گزشتہ سال کی مردم شماری کی روشنی میں آبادی کی بنیاد پر ضلع چترال کی آبادی کا انڈکس one point four fiveرہا جس کی بنیاد پر اسے صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست مل گئی اور اپر چترا ل صوبائی اسمبلی کے لئے مزید حلقہ نہیں رہا۔ اگر پی ٹی آئی حکومت ضلع اپر چترال کی نوٹی فیکیشن 28دسمبرسے پہلے جاری کرتے تو اپر چترال کے ضلعے کو اس کی آبادی کی انڈکس 0.7کی بنیاد پر ایک نشست مل جاتی اور نوٹی فیکیشن نہ کرنے اور اس ضلعے کوایک ایم پی اے کی نمائندگی سے محروم کرنے کا خمیازہ شاید اسے آنے والی الیکشن میں بھگتنا ہی پڑے گا۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی مقامی قیادت اپنی دفاع میں الیکشن کمیشن کی طرف سے لگائی جانے والی banکو جواز کے طور پر پیش کررہے ہیں لیکن اسے کوئی ماننے کو تیار نہیں کیونکہ 8نومبر سے 28دسمبر تک تین نہیں بلکہ پچاس دنوں کا وقفہ دستیاب تھا جس کے دوران نوٹیفیکیشن کے اجراء میں غیرمعمولی تاخیر کا مظاہرہ ہوا جس سے سب ڈویژن مستوج کے عوام کے دلوں میں یہ بات راسخ ہوگئی ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اپر چترال کے قیام میں مخلص اور سنجیدہ بالکل نہیں تھی۔اب پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے کسی بھی قسم کی تاویل اور وضاحت کی کوشش بے مغنی ہوگی جس پر کوئی باؤر کرنے کو تیار نہیں ہوگااور کپتان شائد اس بنا پر الیکشن مہم میں چترال کا دورہ بھی نہ کرپائے گاکیونکہ اپر چترال کے ضلعے کا سوالیہ نشان کا اسے سامنا رہے گا۔
ضلع اپر چترال کا قیام آنے والی حکومت کے لئے بھی ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس وسیع وعریض علاقے پر انتظامی کنٹرول انتہائی مشکل امر ہے اور یہ بات ریکارڈ میں ہے کہ چترال کے بعض علاقے اور وادیاں ایسی ہیں جہاں اب تک ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او یا کسی اور محکمے کا ضلعی سربراہ ابھی تک نہیں جاسکا ہے۔ گزشتہ دنوں تورکھو کے علاقے کھوت، اجنو اور ریچ کے مقامات پر جب موجودہ ڈی۔سی ارشاد سودھر نے کھلی کچہری کا انعقاد کیا تو مقامی لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ 969میں ریاست چترال کے انضمام کے بعد کسی ڈپٹی کمشنر یا سرکاری محکمے کا سربراہ نے ان علاقوں میں نہیں آئے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ چترال شہر میں بیٹھنے والے ضلعی سربراہ کے لئے عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اتنے دور دراز علاقوں کا بار بار دورہ کرکے ان کے مسائل حل کرے اور ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرے اور اس مئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اپر چترال کو الگ ضلع بنایا جائے تاکہ تمام علاقے عملی طور پر انتظامی شکنجے میں آسکیں اور آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق کسی چھوٹے درجے کے سرکاری اہلکار کومن مانی کا موقع نہ مل سکے اور عوام کے مسائل ان کے دہلیز پر حل ہوسکیں۔ آنے والے الیکشن میں اپر چترال سے ووٹ لینے کے لئے امیدواروں کا سب سے بڑا امتحان اس بات ہوگا کہ وہ کون امیدوار ہے جو اسے ضلعے کا درجہ دلوانے کی صلاحیت و قابلیت رکھتا ہے اور ساتھ مخلص بھی ہے۔ اگرچہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے اب ضلعے کا قیام بے مغنی ہے اور آنے والے کئی عام انتخابات میں ضلع چترال میں صوبائی اسمبلی کا صرف ایک ہی سیٹ ہوگالیکن اس ضلعے کا قیام اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ پی ایف سی ایوارڈ میں فنڈز ضلعے کی بنیادپر تقسیم ہوتے ہیں جس میں بنیادی factorتو آبادی ہی ہے لیکن ضلعے کی بنیاد پر اسے کچھ وسائل مل سکتے ہیں۔ اپر چترال سے صوبائی اسمبلی کے حلقے کی بحالی کے لئے اگلے مردم شماری تک انتظار کرنا پرے گا کیونکہ نئی حلقہ بندیاں مردم شماری کے بعد ہی کئے جاتے ہیں۔