”التجا در التجا“ اور مولانا احمداللہ کی شاعری کے اہم پہلو،، تحریر۔۔۔نصیراللہ منصور

Print Friendly, PDF & Email

”التجا در التجا“ اور مولانا احمداللہ کی شاعری کے اہم پہلو،، تحریر۔۔۔نصیراللہ منصور
مولانا احمد اللہ صاحب میرے محترم اور پیارے دوستوں میں سے ہیں۔ تفقہ فی الدین کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے انہیں ذوق ِ لطیف سے بھی نوازا ہے یہ ایک ایسا فن ہے جس کی ہر دور میں دین کی اشاعت، تبلیغ اور اصلاح ِ امت کے سلسلے میں ضرورت محسوس ہوئی ہے یہی وہ کمال ہے کہ ہمارے خطباء اپنی تقریروں میں اس فن کا سہارا لیتے ہیں تاکہ لطیف الطبع حضرات کے دل میں بات اتر جائے۔ ہمارے اکابرین ِ دین کو بھی اللہ تعالی نے ذوق لطیف سے نوازا ہے۔ جنہوں نے اپنے فن کو اشاعت دین کی خاطر صرف کئے ہیں اپنے اسلاف کی نہج کی پیروی کرتے ہوئے مولا نا احمد اللہ صاحب کی شاعری کا میدان بھی بہت وسیع ہے۔ اپنے منظوم کلام کے ذریعے مولانا صاحب نے توحید وسنت کی روشنی کو جس طرح نکھار کر پیش کیا ہے اسی کے عین معیار پر رکھ کر امت کی علمی و فکری اصلاح کا نمایاں کارنامہ بھی انجام دیا ہے۔یہ حقیقت تمام اہل ایمان پر عیان ہے کہ نبی کی اتباع پوری امت کے لئے عزت و وقار اور کامیابی کا ذریعہ ہے اسی محبت میں مولانا احمد اللہ صاحب کے اشعار ایسی خوبصورت اور لطیف معنویت کی غمازی کرتے ہیں کہ ان کا ادراک ہوتے ہی دل جھوم اٹھتا ہے۔بہر حال کسی بھی ادبی تخلیق میں الفاظ کا انتخاب اور استعمال تمام تر شاعر کی شخصیت پر ہوتا ہے اور اسلوب میں انفرادیت کے پس منظر میں صاحبِ اسلوب کی شخصیت کارفرما ہوتی ہے۔مولانا کے ا ن اسلوب میں اعلی خاندانی تربیت اور شعور کی رو چلتی ہوئی نمایاں نظر آتی ہے
مولانا احمد اللہ صاحب کی شاعری درحقیقت مولائے حقیقی کی محبت،ان کی سچی معرفت،اور ان کے قرب کی والہانہ چاہتوں کے رنگ میں ڈھلی ہوئی وہ عارفانہ شاعری ہے کہ جس کے موضوع کی گہرائی و گیرائی کو وہی شخص بجا طور پر سمجھ سکتاہے جن کو عارفین کے الہانی مضامین سے کچھ مناسبت حاصل ہو ئی ہوں۔مولانا کی شاعری کو مضامین کی ہمہ گیری کی وجہ سے کئی پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے چنانچہ آپ رب حقیقی کی حمد کرتے ہیں تو اس قدر اپنائیت کا اظہار ہوتا ہے کہ ذہن و ضمیر کو رب تعالی کی ذات بڑی قریب محسوس ہونے لگتی ہے، اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہیں تو اسی نوعیت کا تاثر دل میں اتر جاتا ہے۔
مولانا کے اشعار میں مولائے کائنات کے حقیقی عشق کاعکس بہت نمایاں ہے جسے دیکھ کر قونیہ کا وہ لق ودق صحر ا یاد آجاتا ہے جہاں اللہ تبارک و تعالی کی یادوں میں منہمک رہ کر عشق و طلب میں مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل عرصہ گزارکر لگ بھگ اٹھائس ہزار اشعار کہے تھے جو کہ عشق الہی اور معرفت خداوندی کے علمی انوارات سے لبریز آج کل بھی ہمارے پاس موجودہیں۔
مولانا کے تخلیقی اسلوب کا اگر ہم تنقیدی سطح پر جائزہ لیں تو ہمیں اُن کی شاعری میں بیشتر مقامات پر شعور کا بہاؤ عشق الہی اور عشق رسول کا جذبہ بڑی شدت کے ساتھ چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ذوق لطیف کے اسلوب میں جگہ جگہ ان کا تاریخی شعور بھی اپنی جھلک منفرد انداز میں دکھاتا ہے۔ اُن کے اندازِ بیان میں جہاں اور بہت سی خوبیاں اور کمالات ہیں وہیں علم تصوف کے افکار بھی اہمیت رکھتے ہیں۔جو اُن کے اسلوب میں ضرور اس طرح رچ بس گیاہے کہ جس کے بعد ان کا اسلوب شب بیداری کے شعور اور شان و شوکت سے بھرپور دکھائی دیتا ہے۔
مولانا کا شمار چترال کے ان معروف اور کہنہ مشق شعرا میں ہوتا ہے جن کے فنی سفر کے پیچھے ان کا مشاہدہ اور تجربہ بولتا ہے۔انھوں نے باقاعدہ شاعری کا آغاز اپنی مادری زبان سے کیا۔ بعد ازاں انھوں نے اردو میں دل کھول کر لکھااورحمد،نعت، نظم اور دیگر اصناف میں خوب طبع آزمائی کی۔اگرغور سے دیکھا جائے توانسان کے دماغی اور ذہنی اکتشافات کی تین نوعیتیں بالکل واضح ہیں۔
نوع اول فلسفے کی ہے،جس کا کام ما بعد الطبیعات پر غور و فکر کے ذریعے مختلف اور متباین تصورات کو مربوط کرنا ہے۔نوع ثانی فکرسانئس کی ہے جو اشیاء کی تقسیم بندی،تجربے اور تحلیل کے ذریعے ادراکِ حقیقت کرکے صداقتوں کی تلاش میں رہتی ہے اور تیسری اہم نوع ادب و فن کی ہے: جس کا بڑا مقصد ادراک ِحیات اور شعور زیست کے بعد نئی حقیقتوں اور صداقتوں کی تخلیق بھی ہے۔مولانا احمد اللہ نے فکری انکشاف کی تیسری نوع یعنی ادب اور شعری اسلوب کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہے۔ لیکن پہلی دونوں انواع کو اس کے ساتھ ملا کر شاندارامتزاج اور جامع اسلوب بیان کیا ہے۔ان کے ادبی اور شعری تجربوں میں فلسفیانہ اور سائنسی رویے بھی ملتے ہیں،ان کے یہاں شعر کی رومانیت کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ اور سانئسی شعور کی کار فرمائی بھی نظر آتی ہے۔ عام زندگی میں بھی وہ شعور بلکہ سائنسی شعور کو بڑی اہمیت دینا پڑتاہے۔میرے خیال میں مولانا کی شاعری عالم انسانیت کی ترجمان ہے اور اپنی سچائی کا ببانگِ دہل اظہار کرکے ایک ایسا مقام بنا رہی ہے جو اس سے پہلے دین دانش شعراء کو ہی نصیب ہو سکا ہے۔شعر کی یہی صنف ان کے افکار کی اعلیٰ ترجمان ہے کہ انھوں نے ابتدائی عمرمیں ہی اپنی سوچ کو نئی جہت سے آشنا کرتے ہوئے ایک ایسی شعری روایت قائم کی ہے جس کو اپنانا ہر شاعر کے لیے باعث ترغیب ہے۔ان کے ہاں تخیل کی سرمستی اجتماعی احساس میں ڈھل کر ادب کا گراں قدر خزینہ بن کر”التجا در التجا“ کی حسین صورت میں سامنے آئی ہے۔
مولانا کی شاعری کا نمایان پہلو عصری آگہی کا عنصر معجزنما اثرات کا حامل نظر آتا ہے۔محبت الہی اور محبت رسول قاری کو حقیقتوں کی دنیا میں پہنچا دیتا ہے اور خوب صورت روپ اور نئے خیالات میں سجی سچائیوں کا اصلی روپ دیکھ کرزندگی کی معنویت کو سمجھ جاتا ہے۔
مولانا احمد اللہ صاحب ایک معتدل نظریاتی تخلیق کار ہیں جو اصلاحی اور تعمیری مقاصد کے لیے ادب کو ایک مؤثر ترین وسیلہ سمجھتے ہیں۔دور حاضر میں انسانیت کو امن و بھائی چارہ کا پیغام دیتا ہے اور تعلیمات نبوی کے عملی طور پر حصول کی دعوت دیتا ہے۔
مولانا عصر حاضر میں خوب صورت لب ولہجہ اور پُر فکر خیالات و احساسات کے شاعر ہیں۔ ان کے فن کے پیچھے ان کا طویل فنی سفر خاندانی ادبی امتزاج اور مشاہدہ یقیناکار فرما ہے۔وہ ایک فکری اصلاحی تخلیق کار ہیں جو اپنے قلم کی طاقت سے بنی نوع انسان کو عشق الہی اور عشق رسول کی طرف بلانے کی سعی میں مصروف ہیں۔اپنے اشعار میں جگہ جگہ امن کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مولانا کاایک جید عالم دین ہونے کے ناطے اسلامی تاریخ،تہذیب اور ثقافت سے بہت پیار ہے”التجا درالتجا“ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلامی کلچر کو بقا کاوسیلہ سمجھتے ہیں
مولانا کے اشعار سے عیان ہے کہ وہ دکھتی،بلکتی،سسکتی اور زخموں سے چُور چوُر انسانیت کے انتہائی مشفق اور ہمدرد ہیں۔ وہ ان کے لیے امن اور انصاف کے خواہاں ہیں۔ وہ اس دھرتی کو امن و آشتی کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ایک صحت مند معاشرہ قائم کرنے کے خواہش مند ہیں جہاں انسانیت تعلیمات نبوی سے پوری طرح اشنا ہوں۔
مولانا کے اشعار کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کا تاریخی ورثہ اور قومی کلچر وہ قوت ہے جو عصا اورید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر ہے۔وہ قوت پست کو بالا کر سکتی ہے اور پورے عالم میں اُجالا کر سکتی ہے اس کے اثر سے احساس اور شعور کو مثبت انداز میں مہمیز کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔وہ اسلامی تاریخ،مذہبی اقدار،مذہبی و ثقافتی عوامل اور قومی تشخص کو اس طرح اپنے فکر اور فن کی اساس بنائے ہوئے ہیں کہ ان کا اسلوب ان کی شخصیت بن کر سامنے آجاتا ہے۔اسلوب کی چھلنی میں چھن کر ان کے الفاظ ان کی مقناطیسی شخصیت کا اعلی حقیقی رُوپ پیش کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں بے ساختگی کا عنصر نمایاں ہے۔ یہ بے ساختگی ان کے اسلوب کا اساسی پہلو ہے۔وہ اپنے تجربات، احساسات اور جذباتی کیفیات کو اس طرح الفاظ کے قالب میں ڈھال کر جو طرزِ فغاں ایجا دکی وہ اندازِ بیاں قرار پا جاتی ہے۔ہر قسم کے حالات اور آزمائشوں میں وہ ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ زمانے،حیات اور کائنات کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے ایسا رویہ اپنایا ہوا ہے گویا کہ زندگی کی تسبیح کے سارے دانے ایک تار میں پروئے ہوئے ہیں۔انسان کو اسکی حقیقت یاد دلاتی ہے اور یہ جاننے پر مجبور کرتی ہے کہ التجا در التجا کے بے غیر ہماری نجات کے لئے کوئی راہ نہیں ہے