داد بیداد ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔دریائے جہلم کے کنا رے

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔دریائے جہلم کے کنا رے
دریائے جہلم کے کنا رے
دریائے جہلم کے کنا رے ریت پر عبادت کر نے والے بزرگ نے پا کستان کے صدر سے کہا پا کستان کے استحکام کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ابھی تک وہ بچہ پیدا نہیں ہوا جس کے لئے پا کستان کو و جود بخشا گیا خدا رسیدہ ولی کا مل کی یہ بات گوجرانوالہ، کر اچی اور کوئٹہ میں پا کستان ڈیمو کریٹک مو منٹ کے جلسوں کی گہما گہمی میں بار بار یا د آتی ہے اپو زیشن کے جلسوں میں 10باتیں کہی جا تی ہیں تو حکومت کی طرف سے 20باتیں کہی جا تی ہے گو لہ باری اور جوابی گولہ باری کے مو سم میں ذرائع ابلاغ سے غیر یقینی صورت حال کا سندیسہ ملتا ہے محب وطن حلقے وطن کے مستقبل سے ما یو س ہو جا تے ہیں اور سیا سی ور کروں میں ہیجا نی کیفیت پیدا ہو جا تی ہے 1988ء میں بے یقینی اور افرا تفری کی ایسی ہی کیفیت اُس وقت پیدا ہوئی جب وزیر اعظم جو نیجو کی حکومت ختم کر کے عبوری کا بینہ تشکیل دی گئی سیا ست دانوں کی طرف سے جماعتی بنیا دوں پر پا رلیما نی انتخا بات کے مطا لبے ہورہے تھے حکومت کو پا کستان پیپلز پارٹی کی واپسی کا خوف تھا اس لئے سر کاری پا لیسی گو مگو سے دوچار تھی جو لائی کا مہینہ تھا جنرل ضیاء الحق کو کسی مر د قلندر کی تلا ش تھی ایک دن انہیں بتا یا گیا کہ جہلم میں ایک ولی کامل رہتا ہے جر نیل صاحب نے کہا علماء مشائخ کا نفرنسوں میں ان کو بلا لیتے، کہنے والے نے کہا وہ ایسی مجلسوں میں نہیں آتا جر نیل صاحب نے کہا پھر اس کو ایوان صدر بلاؤ کہا گیا وہ ایوان صدر نہیں آئے گا جرنیل صاحب نے کہا اگر یہ بات ہے تو مجھے ان کے پا س لے جاؤ کہنے والے نے کہا پروٹو کول کے بغیر جا نا ہو گا اُس نے کہا قبول ہے چنا نچہ جنرل ضیا ء الحق پرو ٹو کول کے بیغیر درویش کے آستانے پر حا ضرہوئے درویش آستا نے پر مو جو د نہیں تھا جر نیل صاحب کو بتا یا گیا کہ حضرت اس وقت دریائے جہلم کے کنا رے ریت پر ذکر اذکار، عبادت اور مراقبہ میں مصروف ہو نگے جر نیل صاحب نے کہا مجھے وہاں لے چلو جب نیاز مند کو وہاں پہنچا یا گیا تو عجیب منظر تھا حضرت نقاب اوڑھے مرا قبے میں مشغول تھے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ جنرل ضیاء ایک خا ص فا صلے سے اس کیفیت کا نظا رہ کر تے رہے پھر آگے بڑھے اور حضرت کے سامنے جا کھڑے ہوئے حضرت نے سر نہیں اُٹھا یا نقاب نہیں ہٹا یا اُسی حا لت میں کہا بو ٹوں سمیت آگئے ہو؟ جنرل ضیاء نے بوٹ اتارے حضرت نے پو چھا کیا لینے آئے ہو؟ جنرل ضیا ء نے کہا دعا لینے آیا ہوں آواز آئی کس کے لئے دعا؟ جنرل ضیا ء نے کہا پا کستان کی سلا متی کے لئے حضرت کی گرجدار آواز گو نجی پا کستان کو کچھ نہیں ہو گا ابھی وہ بچہ پیدا نہیں ہوا جس کے لئے پا کستان کو وجود بخشا گیا جنرل ضیاء نے کہا میرے لئے دعا کیجئے! حضرت کی آواز آئی ”فیصلہ ہو چکا ہے“ جنرل ضیا ء نے جیب سے لفا فہ نکا لا حضرت نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا جنرل ضیاء الٹے پاوں واپس ہوئے جب گاڑی کے پاس آئے تو پسینے سے شرا بور تھے اس واقعے کے 20دن بعد بہا ولپور میں فو جی جہاز کا حا دثہ ہوا جنرل ضیاء اس جہاز میں سوار تھے وہ نہ بچ سکے پا کستان بچ گیا یقینا پا کستان کو کچھ بھی نہیں ہو گا جب بھی سیا ستدانوں کی طرف سے پا کستان کی سلا متی پر سوا لات اُٹھا ئے جا تے ہیں مجھے جہلم والے بابا حضرت خواجہ ابو الحسن محمدعبد المجید احمد کی باتیں یا د آتی ہیں میرا یقین ایک غیر مترلزل عزم میں بدل جا تا ہے کہ پا کستان کو کچھ نہیں ہو گا حزب اقتدار کی گردن کا سریا بھی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا حزب اختلاف کے دماغ کا خلل بھی پا کستان کی سلا متی پر کوئی داغ، کوئی دھبہّ نہیں لگا سکے گا جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے چند سال بعد باباجی وفات پا گئے تا ہم ان کے الفاظ وقت کی تختی پر ثبت ہیں جس کا دل عشق الٰہی کے سہارے زندہ ہو اُس کو مو ت نہیں آسکتی ؎
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالیم دوام ما
حکومت کے تکبر اور حزب مخا لفت کی ہٹ دھر می کی وجہ سے پا کستان پر کئی دفعہ بُرا وقت آیا مگر ہر بار اللہ تعا لیٰ نے پا کستان کو اُسی بچے کے لئے بچا لیا جو پیدا نہیں ہواتھا 1954ء سے 1958ء تک ایسا ہی منظر تھا اللہ پا ک نے اس ملک کو بچا لیا 1968ء سے 1972ء تک ایسے ہی منا ظر تھے اللہ پا ک نے اس ملک کی نا ؤ ڈو بنے نہیں دی ما رچ 1977سے جو لائی1977تک پا کستان میں سیا سی عدم استحکا م کی ایسی ہی حا لت تھی لیکن اللہ پا ک نے سیا ست کے کمبل کو دریا میں غرق کر کے پا ک وطن کو بچا لیا سیا ست کا کمبل 11سال بعد ہاتھ آگیا اکتو بر 1999ء میں ایک بار پھرایسی ہی صورت حا ل پید اہوئی حکمران کی گردن کا سریا نا قابل شکست نظر آتا تھا ایسا نہیں لگتا تھا کہ کوئی ما ئی کا لا ل حکمران کی گردن کا سر یا موڑ کر یا توڑ کر نکا ل سکتا ہے مگر اللہ پا ک نے غیبی مدد کی آسمان سے جہاز اتارا گیا اور پا ک وطن کو انار کی یا افرا تفری سے بچا کر ملکی استحکام اور معا شی خو شحا لی کے راستے پر ڈال دیا اخبار بین حلقوں کو یاد ہوگا غلا م محمد، سکندر مر زا، ایوب خان اور ذولفقار علی بھٹو خود کو نا گزیر ضرورت قرار دیتے تھے ہر ڈکٹیٹر کی طرح ان سب کا خیال تھا کہ میرے بغیر پا کستان زندہ نہیں رہ سکتا دنیا نے دیکھا یہ سب لو گ چلے گئے پا کستان سلا مت رہا ہم مانتے ہیں کہ معا شی ابتری انتہا کو پہنچ گئی ہے، سیا سی افراتفری آخری حدود کو چھو رہی ہے، داخلی انتشار روز بروز بڑھ رہا ہے ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بد امنی کے سایے منڈ لا رہے ہیں ہم نے مانا کہ آج قو موں کی برادری میں پاکستان بے یارو مدد گار ہے ہم نے ما نا کہ ملکی تر قی اور قو می سلا متی کے تما م اشارئیے نیچے جا چکے ہیں اس کے باو جود ہمیں بابا جی خواجہ ابو الحسن محمد عبد المجید کے دو جملوں پر یقین ہے جو انہوں نے دریا ئے جہلم کے کنا رے وقت کے بڑے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق سے کئے تھے”ابھی وہ بچہ پیدا نہیں ہوا جس کے لئے پا کستان کو وجو د بخشا گیا تھا“