دادبیداد۔۔مواخذہ کی حکمت۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

امریکہ میں 2020انتخا بات کا سال ہے نو مبر 2020میں صدارتی انتخا بات ہونگے جنوری 2021ء میں نیا صدر حلف اٹھا ئیگا اگر کوئی صدر نا کام ثا بت ہوجائے تو عوام اس کو رائے دہی کے ذریعے مسترد کرینگے یہ بات امریکیوں کو ہم سے بہتر معلوم ہے اس کے باوجود انتخا بات سے 11مہینے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ ہورہا ہے اس میں کیا حکمت ہے امریکی آئین کے تحت وہاں صدارتی نظام رائج ہے ہر 4سال بعد بالغ رائے دہی کے ذریعے صدر کا براہ راست انتخا ب ہوتا ہے اگر کوئی ایسا صدر اقتدار میں آئے جو امریکی مفا دات کے لئے خطرہ ہو تو پارلیمنٹ موا خذہ کے ذریعے اس کو گھر بھیج سکتی ہے عہدے سے محروم کر سکتی ہے 2016کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹر مپ صدر منتخب ہوئے گذشتہ 3سالوں میں انہوں نے بے شمار متنا زعہ بیانا ت دیے جو دنیا بھر میں امریکہ کے لئے شر مندگی کا با عث بنے اس وجہ سے 2019ء میں پا رلیمنٹ کے اندر ان کے مو اخذے کی تحریک شروع ہوئی یہ تحریک پہلے کانگریس کی ہاوس کمیٹی کے حوالے کی گئی ہاوس کمیٹی میں تفصیلی بحث کے بعد تحریک کو امریکی کانگریس کے ایوان میں رائے شماری کے لئے پیش کیا گیا رائے شماری میں بھاری اکثریت سے تحریک کی منظوری دیدی گئی اب یہ تحریک امریکی ایوان بالا یعنی سینیٹ کو بھیج دی گئی ہے سینیٹ میں بھی ڈیمو کریٹک پارٹی کی اکثریت ہے اس لئے سینیٹ بھی اس کی منظور ی دے دیگی امریکی آئین کے تحت سینیٹ سے تحریک منظور ہونے کے بعد صدر کے دستخط کی کوئی ضرورت نہیں صدر کا مواخذہ (Impeachment) ہوجائے گا اور نائب صدر اسکی جگہ صدر کا منصب سنبھا لے گا دنیا کے مختلف ملکوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ آئینی مدت سے 11ماہ پہلے صدر کے موا خذے کی تحریک میں کیا حکمت ہے صدر ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ تحریک2020کے انتخا بات میں میرے باپ کو دوبارہ صدر بنانے کی راہ ہموار کرے گی 11مہینے اقتدار سے محرومی کوئی مہینگا سودا نہیں یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑا نے کے لئے کانگریس کی دبنگ سپیکر نینسی پلو سی کا کہنا ہے کہ 4سال حکومت کرنا ری پبلکن پارٹی کا حق ہے تا ہم امریکی عوام ایک غیر متوا زن شخص کو منصب صدارت پر دیکھنا نہیں چاہتے قو موں کی زندگی میں مہینوں اور دنوں کی بات نہیں ہوتی لمحوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ایک غیر متوازن شخص بڑے عہدے پر ہو تو وہ کسی بھی لمحے ملک اور قوم کے لئے کوئی مصیبت پیدا کر سکتا ہے اس لئے ڈونلڈ ٹرمپ کا موا خذہ وقت کی ضرورت ہے جس طرح اردو کے کسی شاعر کا مصرعہ ہے لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی ہمارے سامنے ما ضی قریب کی دو مثا لیں بہت واضح اور نما یا ں ہیں اگر معمر قذا فی کو آئینی طریقے سے معزول کیا جا تا تو لیبیا تباہی،بر بادی اور غلا می سے بچ سکتا تھا اسی طرح اگر صدام حسین کو وقت پر اقتدار سے الگ کیا جا تا تو عراق پر تباہی،بر بادی اور مصیبت نہ آتی دونوں لیڈر ٹرمپ کی طرح غیر متوازن تھے اپنی تقریرو ں میں اول فول بکتے تھے انجام بہت بُرا ہوامو جوہ حا لات میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مو دی کی مثال ہمارے سامنے ہے ان کی غیر متوازن اور نا معقول زہنیت کی وجہ سے پورے بھارت میں آگ لگی ہوئی ہے اُن کے خلا ف تحریک عدم اعتماد کا جواز مو جود ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرنے کے لئے اپو زیشن کے پاس اکثریت نہیں ہے عہدحا ضر کے مشہور سما جی دانشور نوم چومسکی کا خیال ہے کہ کسی بھی ملک کے بالغ رائے دہند گان غلط ہو سکتے ہیں اس لئے اکثریت کو سند نہیں ما نا جا سکتا شاعر مشرق علا مہ اقبال نے 100سال پہلے اپنی نظموں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا اُن کے فارسی قطعے کا تر جمہ ہے کہ ”جمہوری انداز فکر سے دور بھا گو،تجربہ کار لو گوں کی بات مانو کیونکہ 200گدھوں کو یکجا کیا جا ئے تو انسان کی طرح سوچ اور فکر آپ کو نہیں دے سکینگے“ اردو میں علا مہ اقبال کا مصرعہ بہت مشہور ہے ”بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے“ اگر امریکی پا ر لیمنٹ اپنے رائے دہندگان کی فہم و فراست پر اعتبار نہیں کرتی اور ایک منتخب صدر کو اس کی غیر متوازن ذہنیت کی وجہ سے آنے والے انتخا بات سے 11مہینے پہلے معزول کرنا چاہتی ہے تو بر صغیر ایشاء میں بھارت جیسے ملکوں کو رائے دہندگا ن کی فراست پر آنکھیں بند کر کے اعتبار نہیں کرنا چاہئیے جس طرح رائے دہندگان کو تو لا نہیں جاتا اسی طرح رائے دہند گان بھی کسی لیڈر کو تولتے نہیں، ٹٹو لتے نہیں پارٹی کی وا بستگی کو آنکھیں بند کر کے قبول کرتے ہیں امریکی آئین میں صدر کے مو اخذے کی یہی حکمت ہے۔