چترال سرحد پار تجارت سے متصل فوائد ,,,,محمدآمین

Print Friendly, PDF & Email

چترال سرحد پار تجارت سے متصل فوائد ،، تحر ےر محمدآمین
اقتصادی ترقی اور اصلاحات موجودہ حکومت کی اہم ترین جیحات میں سے سر فہرست ہیں کیونکہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن نیہں ہوسکتا جب تک اس ملک کے اقتصادی اور معاشی حالات بہتراور پا ئیدار نہ ھو۔اس ضامن میں برآمدات اور درامدات خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ان حقائق کو مد نظر رکھتے ھوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ملک میں انقلاب برپا کرنے کے لیے کوشان ہے تاکہ ملک سے غربت،بیروزگاری اور کرپشن کا خاتمہ ہوسکیں اور صحیع معنون میں پائیدار ترقی اور تبدیلی اجائے۔لہذا دوراہ پاس (( Dorah Passاور آراندو بارڈر کو سرحد پار تجارت کے لیے کھولنا اس پالیسی کی اہم کڑی ھے تاکہ موجودہ دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو متقبل قریب میں واسطی ایشاء کے ریاستون تک پھیلائے۔
اگر ہم ضلع چترال کے جعرافیائی حدود کو دیکھں تو یہ مقامات (points) افغانستان کے صوبہ بدخشان اور کنار سے ملے ہوئے ھیں اور زمانہ قدیم سے تجارتی قافلون کی امد گاہ رہ چکے ہیں۔لیکن اگر ان دو اہم مقامات کا تقابلی موازینہ کیا جائے تو دونوں کی اقتصادی اور جیو پولیٹیکل اہمیت کا انداذا ہوسکتا ھے جہان تک آراندو بارڈر سے تجارتی راہداری کے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں وہ صرف اندرون افغانستان تک محدود ہیں اور اس کے برعکس درا دوراہ سے سر پار تجارت واسطی ایشیاء کے ممالک تک قابل عمل ہیں۔کیونکہ دوراہ پاس واسطی ایشیاء تک رسائی کے لیے مختصر تریں زمینی راستہ فراہم کرسکتا ہے اور چترال ہیڈکوارٹر سے تاریخی دریائے آمو (Oxus River) کا فاصلہ صرف 178 کلومیٹر بن سکتی ھے جو کہ آفغانستان کے بدخشان صوبے کو واسطی ایسشیاء کے ریاست تاجکستان کے صوبے بدخشان سے جدا کرتی ہے دلچسب بات یہ ہے کہ چترال ٹاؤن سے دوراہ کا فاصلہ 74 کلو میٹر بن سکتی ہے اور یہ تاریخی ڈیورنڈ لائن (Durand Line) سے ہوکر گزرتی ہے جو 1892ء میں برٹش انڈیا اور آفغان حکومت کے درمیان سرحد بندی کے لئے کینچھی گئی تھی اور یہ مشہور زمانہ لیڈی ڈیفرین جیھل (جسکو فارسی میں حوض دوراہ کہتے ہیں) کے قریب واقع ھے۔
موجودہ حکومت کے اتصادی پالیسون کے مدنظر حال ھی میں دوراہ پاس اور آراندو بارڈر کو سرحد پار تجارت کے لیے کھول دیے گیے اور دونون جہگوں پر افتتاحی تقاریب منعقد کیے گیے جس میں صوبائی کلٹر کسٹم اینڈ ریونیو،قانون نافذ کرنے والے،انکم ٹیکس اور دوسرے معتلقہ ادارون کے نمائیندون نے شرکت کیں اور کلکٹر کسٹم نے باقائدہ طور پر علاقے کے عوام کے سامنے وفاقی حکومت کے نوٹیفیکش کا اعلان کیا اور ائندہ کے طریقہ کار سے اگاہ کیا جس میں شاہ سلیم اور آراندو میں مختلف محکمون کے اسٹاف کی تعیناتی اور زمینات کی ترسیلی وغیرہ شامل تھے۔تاکہ پہلے کی نسبت تجارت قوائد و ضوابط کے ساتھ ہو سکیں جس سے نہ صرف چترال بلکہ پورے ملک کے امدنی میں خاطر خواہ اضاٖفہ ہوسکیں۔ساتھ ہی اپ نے واسطی ایشیاء کے ساتھ درا دوراہ کے راستے تجارت شروع کرنے کا بھی اندعا دیا تاکہ یہ بھی جلد ممکن ہو سکیں۔
اس حقیقت میں کوئی شک نیہں ہے کہ درا دوراہ سے سرپار تجارت سے گرم چشمہ اور چترال کے لوگون کی زریعہ ادنی میں زبردست اضافہ ھوسکتی ھے 1979ء سے لیکر 2007ء تک (جب یہ راستہ سکیورٹی کی وجہ سے تجارت کے لیے بند ہوا تھا) اربوں روپے کے درامدات پاکستان میں داخل ہوئے تھے جس میں تقریبا ساڑے تیئس ارب کے قیمتی پھتر لاجورد اور 28 لاکھ مویشی شامل تھے لیکن کوئی باقاعدہ (Regularized) قانون نہ ہونے کی وجہ سے ضلعی اور صوبائی حکومتیں ان سے کوئی خاطر خواہ فائدے حاصل نہ کرسکیں اور زیادہ تر کرپشن کے نذر ھوئے۔
دوراہ پاس کا سرحد پاس تجارت کے لیے کھولنے سے پاکستان کے کئی برآمدی ایشیاء ملک کے لیے زرمبادلہ کمانے میں اہم ثابت ھونگے جن میں ٹکیسٹائل کے سامان،ادویات،پیٹروکمیکل،روزمرہ کے ایشیاء خوردنی کے سامان جیسے کہ چائے،چینی،مسالے، گھی وغیرہ اور گاڑیون کے پرزے وغیرہ سرفہرست ہونگے۔اور جہان تک درآمدات کا تعلق ھیں ان میں قیمتی پھتر لاجورد،زمرد،قیمتی جڑی بوٹیان،قالین،سلاجیت،مال مویشی،اور مختلف انواع کے تازہ اور خشک میوہ جات شامل ھیں۔
ان کے علاوہ چترال،بدخشان اور تاجکستان اور دوسرے واسطی ایشیائی ریاستون کے مابین موجود ثقافتی مذید مضبوط ھونگے کیونکہ چترال کے اکثریتی ابادی کے ثقافت کی جڑین ان ریاستون تک جا ملتے ھیں۔اس کے علاوہ ماحولیات دوست ثقافت بھی پروان چڑھے گا اور یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ شاہ سلیم مستقبل میں ایک ایک صنعتی مرکز (commercial hub) بن جائے گا جس سے علاقے کی لوگون کی امدن میں بہت اضافہ ھوگا۔
چونکہ چین کے حکومت کے ون بلٹ ون روٹ (OBOR) پالیسی کے تحت انے والے دنون میں سی پیک کا اگلہ مرحلہ واسطی ایشیاء کے قدرتی وسائل سے مالامال ریاستیں ھیں اور دوراہ ہی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ھے جن کی فوائد میں سے ایک اھم فائدہ صوبے بدخشان میں مجموعی بہتر امن و امان کی صورت حال ھے۔اس صورت میں پاکستان ان ریاستون سے اپنے انرجی کی قلت کو پورا کرنے کے قابل ہو سکتی ہے جو کہ ملک کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ھیں۔لیکن ان تمام چیزون کا دارومدار افغانستان میں پائدار امن سے مشروط ہیں۔