چترال میں بڑھتے ہوئے خود کُشی کے واقعات کے حوالے سے دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تعاون سے انجمن ترقی کھوار چترال کے زیر اہتمام ایک روزہ سمینار مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) چترال میں بڑھتے ہوئے خود کُشی کے واقعات کے حوالے سے دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تعاون سے انجمن ترقی کھوار چترال کے زیر اہتمام ایک روزہ سمینار مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا۔ جس میں اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسرز، سکالروں اور چترال کے مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ممتاز دانشور ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم نے خود کُشی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ۔ اور کہا کہ یہ بات مسلمہ ہے۔ کہ خوُد کُشی خالصتا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ جو خاندانی، نسلی اور جذبات کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایسی بیماری ہے۔ جس کا علاج ممکن ہے۔ اس کے مریض کو ڈرا دھمکا کر یا جبر سے راہ راست پر نہیں لایا جا سکتا۔ بلکہ اُس کا ساتھی بن کر اُس کے اندر جھانک کر اُس کی مدد کی جا سکتی ہے۔ اور ماہرین نفسیات بھی اسی طریقے سے علاج کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ مایوسی خود کُشی کی بنیاد ہے۔ خود کُشی کی وجہ پسماندگی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ دُنیا میں سب سے تعلیم یافتہ، معشیت میں مستحکم اور والدین کا احترام کرنے والے لوگ جاپان کے ہیں۔لیکن وہاں خود کُشی سب سے زیادہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سفیر اختر نے خودکُشی کے معاشی پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ کہ خود کُشی دُنیا کا واحد جرم ہے۔ جس کا ارتکاب کرنے والا مرنے اور زندہ بچ جانے دونوں صورتوں میں مجرم ٹھہرتا ہے۔ اس کے کئی وجوہات ہو سکتے ہیں۔ لیکن چترال میں معاشی بنیادوں پر اس کے وجوہات زیادہ لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ جب لواری ٹنل کے کھلنے اور سی پیک کی تکمیل کے بعد چترال میں باہر کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد آ جائے گی۔ ایسے میں مقامی نوجوان نسل کی حالت کیا ہوگی۔ کیا تعلیم ہی معاشی مسائل کا حل ہے۔ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں تعلیم کے علاوہ بھی معاشی راستے تلاش کرنے چاہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے بھی بہت زیادہ مسائل پیدا کئے ہیں۔ ڈاکٹر ظہیرالدین بہرام نے خودکُشی کے حوالے سے سیمنار منعقد کرنے، نوجوان طبقے کی خوبیوں کو اُجاگر کرنے اور کمزوریوں کو پس پُشت ڈالنے نیز طلبہ کے اند ر حوصلہ اور خود اعتمادی پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس موقع پر ممبر اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ کہ موجودہ وقت میں چترال میں خود کُشی کے واقعات انتہائی طور پر غور طلب ہیں۔ اور صوبائی حکومت نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ اور رپورٹ طلب کیا ہے۔ جو کہ ایک روایتی قسم کی رپورٹ ہو گی۔ جبکہ ہمیں اس کی تہہ تک پہنچنے کیلئے ایک بامقصد ریسرچ کی ضرورت ہے۔ جو کہ اس مسئلے کے حل تک پہنچنے میں ہماری مدد کر سکے۔ انہوں نے کہا۔ کہ یہ نہایت قابل افسوس بات ہے۔ کہ سکولوں میں فرسٹ دویژن لینے کے باوجود اُن کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور بچوں بچیوں کو دلبرداشتہ کیا جاتا ہے۔ وزیر زادہ نے کہا۔ ہمارے نوجوان نسل کو جاب نہ ملنا بھی ایک وجہ ہے۔ اور ایسے مواقع برابری کی بنیاد پر بھی نوجوان نسل کو حاصل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ علماء اور دعوت و تبلغ سے وابستہ افراد اور سکولوں کے اساتذہ اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایسے بچوں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اُن کے مسائل سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ سیمنار میں اوپن ڈسکشن بھی ہوئی۔ جس میں مختلف شرکاء نیاپنے خیالات کا اظہار کیا اور تجاویز دیے۔ سمینار سے انجمن ترقی کھوار چترال کے صدر شہزادہ تنویرالملک، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما رحمت غازی، ڈائریکٹر پی ٹی وی حبیب الرحمن،سابق صدر سی سی ڈی این محمد وزیر خان، پروفیسر رحمت کریم بیگ،چیرمین آئی سی ڈی پی رحمت غفور بیگ وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔