دھڑکنوں کی زبان۔۔ پھر پی ڈی سی میں۔۔مگر ڈاکٹر رفعت صاحبہ کی کلاس میں۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

بعض لوگ خود اپنی ذات میں ایک انجمن ہوتے ہیں جن کی جہان بھی موجودگی ہو وہ نعمت سے کم نہیں ہوتی۔۔ان کی ذات سے علم و عمل اورجہد مسلسل کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔کردار،اخلاق اور شرافت کی قندیلیں روشن ہوتی ہیں۔وہ سراپا عمل ہوتے ہیں اس لئے ان کی زندگی بھر پور ہوتی ہے۔۔پیشہ ورانہ مہارتوں میں ترقی کے سلسلے میں پی ڈی سی میں یہ ہماری دوسری ٹریننگ تھی۔۔میں خوش قسمت تھاکیونکہ اس گروپ میں سب سٹار اساتذہ جمع ہوگئے تھے۔۔کلاس روم میں ماہر اساتذہ جو ٹریننگ دے رہے تھے ان کا علم،ان کی مہارتیں،ان کا تجربہ حاصل ہی نہیں کیا جارہا تھا بلکہ پیا جا رہاتھا۔۔یہ ”آب حیات“ تھے اور ٹریننگ لینے والے پیاسے تھے۔جن کو ان سے زندگی مل رہی تھی۔۔ایک نکھٹو استاد جو ہمیشہ کلمو کلمو کرتا رہتا یہاں آکر”حیات“کا طواف کر رہا تھا کیونکہ اس کو اس کی زندگی اس سے پہلے اتنی خوبصورت اوراتنی مفید کبھی نہ لگی تھی۔۔کارواں کے ساتھی قندیل تھے۔۔شمع تھے۔۔کرن تھے۔۔پھول تھے۔۔اور آکاش کے تارے تھے۔۔آکاش کے ان تاروں میں جو چاند تھے وہ ٹرینرز تھے۔ایک جگنو تھا جس کو تاروں کی اس جھرمٹ میں بہت طمانیت محسوس ہو رہی تھی۔کیونکہ وہ برابر روشنی حاصل کر رہا تھا۔
لطف نگاہ دوست نے وقت کا رخ بدل دیا
صبح فراق تیرگی شام وصال روشنی
چار جون کی صبح جب ہم خرامان خرامان پی ڈی سی کی بڑی گیٹ سے اندر داخل ہوئے توفضاء وہی تھی۔۔دھڑکتے دل تھے۔۔ متلاشی نگاہیں ساتھیوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔۔ڈاکٹر ریاض پہ نظر پڑی۔۔عبدالولی سامنے آگئے جیسے چاند نکل رہا ہو۔۔زوبیدہ خانم اور شکیلہ انجم مہر عالم تاب کی صورت تاب نظارہ دے گئیں۔۔شیر زمین خان اور عبدالحسیب نظر آئے۔۔لیکن ایک ہوک سا دل میں اٹھا۔۔ جب ایک مانوس سا اجنبی چہرہ دھیرے سے آفس میں داخل ہوتے ہوئے نظر آیا۔۔دل مچلا ہی تھا کہ آرزو نے مچلتا دل تھا م لیا اورکہا”کہ یہ ممکن ہو آپ کی ٹریننگ کے لئے آئی ہو“۔۔بعض دفعہ آرزوویں پوری ہونے میں دیر نہیں لگا تیں۔۔ہمارا سیشن شروع ہوا۔۔ وہی تعارف کی روایت۔۔وہی ذرا کسر نفسی سے ”اپنا آپ“بتانا۔۔جب عبدالولی خان صاحب نے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر رفعت نبی اس پوری ٹریننگ میں ہمارے ساتھ ہونگی۔۔تو پھر سے دل تھا منا پڑا۔آپ ساتھ میں ہوں اور خوش قسمتی بھی ساتھ ہو تو زندگی کتنی خوبصورت ہوگی۔۔ہم نے اپنے ”ایم اے۔ایم ایس سیز“ کوئی تن کے کوئی جھک کے بتا یا۔۔مگر میم کی باری آئی تو ایک پر وقار اور شرین سی آواز دھیمی سی آئی۔۔شستہ اور ٹھیٹ اردو تھی۔رنگ باتیں کر رہے تھے اور باتوں سے خوشبو آرہی تھی۔۔”جو کچھ آپ نے پڑھا یہ سب کچھ میں نے بھی پڑھی ہے۔البتہ میں نے لنڈن سے پی ایچ ڈی کیاہے“۔۔ پھر اپنا اکیڈیمک جب بے غیر مبالغے کے بتا یا تو ہمارے کان کھڑے ہوگئے اور آپ کی معیت میں اپنی خوش بختی پہ جلملا اُٹھے۔۔ ڈاکٹر صاحبہ کی سکولنگ حیدر آباد سندھ میں ہوئی۔۔کالج اور یونیورسٹی یہاں سے پڑھی۔۔سندھ حیدر آباد یونیورسٹی سے ایجوکیشن اور ڈومسٹرک سائنس میں ماسٹر کیا۔۔یونیورسٹی اف برسل برطانیہ سے ایجوکیشن میں اسپیشلایزیشن کیا اور ساتھ یہاں سے پی ایچ ڈی کیا۔۔اس کے بعد یونیورسٹی اف ایسٹ انجیلیا برطانیہ کی ویزٹنگ سکالر ہیں کمبرچ یونیورسٹی اور لیڈز یونیورسٹی برطانیہ کی ویزٹنگ سکالر ہیں آ جکل لیڈز یونیورسٹی برطانیہ کے ریسرچ فیلو ہیں کئی سالوں سے آپ کی خدمات آغا خان فاؤنڈیشن کو حاصل ہیں۔۔آپ نے کئی سال افغانستان میں،چترال میں اور شمالی علاقہ جات میں کام کیا۔۔ڈاکٹر صاحبہ ایک سیدھی سادی بھولی بھالی اور دلکش شخصیت کے مالک ہیں۔۔ آپ کے علم نے آپ کو ایک کرشماتی شخصیت کے روپ میں ڈھالاہے۔۔آپ کی محنت،آپ کا کام،آپ کا اخلاص،آپ کا شوق،آپ کی جستجو،آپ کا انداز،آپ کا اپنے کام سے عشق،آپ کا عزم و ہمت،آپ کا حوصلہ قابل رشک ہے۔۔آپ کی تیس سال کی سروس ہے اور خدمت سے بھر پور سروس ہے۔۔دنیا کے پسماندہ ترین علاقوں میں علم کی روشنی پھیلانے کو اپنا فریضہ سمجھ کر کام کیا ہے ان علاقوں میں افغانستا ن،پاکستان کے شمالی علاقہ جات،گلگت چترال وغیرہ شامل ہیں۔۔وہ سروس کو عبادت سمجھتی ہیں۔۔ان کو علم سے پیار ہے۔۔بچوں سے عقیدت ہے۔۔اور بچوں کی تربیت کو مہا کام سمجھتی ہیں۔۔باتوں باتوں میں فرمایا کہ میری چار بہنیں ڈاکٹر ہیں میں نے سوچا کہ میں تو ڈاکٹروں میں پھنس گئی ہوں اس لئے میں نے عزم کیا کہ میں بھی ڈاکٹر بنوں۔۔ بس پی ایچ ڈی کر لیا۔۔واقعی آپ نے اتنی پڑھی ہیں کہ کتنے ڈاکٹرزاور سکالر ز آپ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کریں گے۔۔ڈاکٹر رفعت کے پاس علم کے علاوہ بہت بڑا تجربہ ہے۔۔اور عظیم خدمت کا سرمایہ بھی۔۔آپ نے پسماندہ علاقوں میں انسانیت کو سروس دے کر یہ ثابت کی ہے کہ اپنی صلاحیتیں شہروں کی چکاچوند کی بجائے پسماندہ نگریوں میں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔۔انسانیت کی خدمت انسان کابڑا پن ہے۔ان کو دوسروں کا احترام کرنے میں لطف ملتا ہے۔۔فخر موجودات ﷺ نے فرمایا کہ جو علم تم میں غرور پیدا کرے وہ نری جہالت ہے۔۔ڈاکٹر رفعت کے علم نے ان میں بلاکی خاکساری پیدا کی ہے۔۔عجیب لگا جب آپ نے ایک عام سے استاد کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ مجھے شک پڑا تھا کہ آپ کی پیدائش چترال کی ہے آپ کی اردو شستہ ہے۔۔ بے میثال ہے۔۔ میری امی لکھنو کی اور ابو دہلی کے ہیں۔۔مگر میں آپ کی اردو کو شاباش دیتی ہوں۔۔سننے والا تلملا اُٹھا اور اس کی عظمت کا قائل ہوگیا۔۔اس نے کتابیں بھیجنے کا وعدہ کیا۔۔میم کے تیکھے لہجے میں عضب کی دلکشی ہے ایسی شخصیت ہی استاد کہلاتی ہے۔ایسامعلم جو اخلاق کا درس دیتا ہو۔آپ جب باتیں کرتی ہیں تو غالب یاد آتا ہے۔۔
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہے اور سنا کرے کوئی
میم کے جملے بڑے کاٹ کے ہوتے ہیں شائستگی کوئی آپ سے سیکھے۔۔دلائل دینے اور سمجھانے کا انداز کوئی آپ کااپنائے۔آپ جب بات کر رہی ہوتی ہیں تو خوبصورت اور شرین الفاظ آپ کا لب چومنے کو آتے ہیں۔۔آپ کے لہجے سے وقار اور آنکھوں سے علم چھلکتا ہے۔۔آپ ایک چلتی پھرتی اکیڈیمی ہیں۔۔اتنا بڑا پن کے بعد اتنا مانوس کہ آپ کی موجودگی عطر لگے اور ایسی خوشبو جو پھیلتی جاتی ہے ہم ایک بڑے انسان کو استاد کے روپ میں دیکھتے ہیں تو حوصلہ ملتا ہے اور اپنے آپ کو استاد کہنے میں فخر محسوس ہوتا ہے۔۔علم کا ایک بہتا دریا،ایک ابشار،ایک خوشگوار احساس جو مشام جان معطر کرتا ہے۔۔۔۔اس بار تو پی ڈی سی والوں نے ہمیں اپنا بڑا احسان مند کرایا۔۔کیونکہ ڈاکٹر رفعت ایک نعمت بھی ہیں اور احسان بھی۔۔جن کا ملنا قسمت کی بات ہوتی ہے۔۔اس سمے ہمیں اپنی قسمتوں پہ بجاطور پہ ناز ہے۔۔