تاریخ کا سبق۔۔ تحریر حذیفہ خلیق کاکاخیل

Print Friendly, PDF & Email

ہجوم اگرچہ زیادہ نہیں لیکن اکثرو بیشتر داڑھی،ٹوپی والے ہی تھے۔پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ، امریکیوں کا ایک علاج اور امریکہ مردہ بادکے فلک شگاف نعرے بھی لگ رہے تھے۔ سٹیج سے امریکی مخالف اور دھواں دار تقاریر کا سلسلہ بھی جاری وساری تھا۔ سٹیج میں دینی جماعتوں کی قائدیں کے شانہ بشانہ ملکِ پاکستان کے دین دوست و علم دوست طلباء تنظیم اسلامی جمعیت طلباء کے سر بکف نوجوان بھی اپنی حب الوطنی اورغیرتِ ایمانی کا اظہار وقتا فوقتا نعروں کی صورت میں کر رہے تھے۔
بہرحال میں ایک طرف کھڑے ہوکر مجسمہ سکوت بن کر اس دن کا سوچ رہا تھا جس دن میری عمر کوئ 8 سال یا کم ہوگی اور میرے ہوم ورک

Apple
ایپل کے معنی سیب ہوا کرتے تھے۔ اور روز 8 بجے کی بی بی سی نشریات سے 9-11 کا قضیہ سنتا رہتا تھا۔
ہوا یوں کہ ایک دن خلاف معمول ہمیں پولیس کے جوانوں نے سکول جانے سے روک دیا۔ وجہ یہ بتائ گئی کہ امریکہ نے افغانستان پر چڑھائ کی ہے۔ نہ معلوم ہمیں کیوں روک دیا گیا۔
اگر چہ میں بہت ہی معصوم اور کم عمر تھا لیکن یہ خبر سن کر انتیائ افسردہ اور شکستہ دل سے واپسی کی راہ لی۔ میرے جذبات کچھ ایسے تھے کہ جائوں اور اپنی معصوم ہستی خس و خاشاک میں ملائوں اور امریکہ مخالف مقدس جنگ میں اپنا حصہ کرلوں اور دنیا کو پیغام دوں کہ ہماری قومیت جعرافیہ کے پابند نہیں۔ ہم جہاں بھی بستے ہیں نظریے کی بنیاد پر ایک ہی قوم ہیں۔ صیاد سے فریاد کبھی نہیں کرتے، قفس توڑنے میں آخری دم تک زورِ بازو آزماتے رہتے ہیں۔
لیکن کیا تھا میں ایک معصوم اور بے بس کلی ہی تھا
افغان مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کچھ اس طرح کرتا تھا کہ روز کے دو روپوں سے مارکیٹ میں موجود جہادی سٹیکرز اور دیگر متعلقات کی خریداری سے جی بہلاتا تھا اور مجھے یاد اس وقت ایک عرب مجاہد کی تصویر اس میدان میں ہٹ ہوچکی تھی جس کے ساتھ ایک دلکش جملہ بھی مرقوم رہتی تھی۔
ہم برق جہاد کے شعلوں سے امریکہ جلتا دیکھینگے۔
مجھے اسکی چنداں خبر نہیں تھی کے یہ حالات کیسے پیدا ہوئے، امریکہ کیا چاہتا ہے۔ گرم پانی تک رسائ اور چین اور پاکستان کی ابھرتی طاقتوں سے اس کا کیا جاتا ہے۔ اب پاکستان میں کیا ہورہاہے اور کیا ہوگا لیکن ان دنوں جا بجا آج کے جلسے کی طرح جلسے جلوسوں پر نظر پڑتی تھی۔ جس میں امریکی مخالف پلے کارڈز اور بینرز ہوتے تھے، اور درد بھرے نعرے اور آج ہی کی طرح داڑھی پگڑھی اور شلوار قمیص والے سفید روپوش پر نظر پڑتی تھی۔ اور یہ جلسہ میں اپنے چھت پہ بیٹھے نزدیک سڑک سے گزرتے دیکھ رہا تھا۔ آخر کون اپنے اکلوتے بیٹے کو ہنگاموں میں شرکت کی اجازت دیتا تب کبھی شرکت کا اتفاق نہیں ہوا۔
چند ہفتوں بعد حالات معمول پہ آگئے اور ہمارا تعلیمی سلسلہ پھر سے شروع ہوئی، پھر اس طرف کبھی دھیاں نہیں گئی البتہ حیران کن حد تک امریکی نفرت سے دل روز بروز لبریز ہوتا جارہا تھا۔ عرصہ بعد سننے میں آیا کہ افغانستان میں قائم اسلامی امارت کا کایہ پلٹ دیا گیا۔
امارت اسلامی کے رہنمائوں کو ایک ایک کرکے موت کے منہ دھکیلا جارہا ہے۔ افغانستان پر امریکی تسلط قائم ہوگئی اور کافی عرصہ یہ بھی پتہ چلا کہ اس وقت کے جہادی ہیرو اسامہ بن لادن بھی صفحہ ہستی سے مٹائے گئے۔
یہ بھی سننے میں آیا کہ وہاں کے گائوں کے گائوں، اور قریہ کے قریہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، چکہتے معصوموں کی پرخچے اڑادیے گئے، بڑھوں بوڑھوں اور مرد و زن کے جسموں کی دھجیاں اڑادی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق 18 لاکھ ہماری ہی طرح انساںوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان میں سے اگر آدھی کو شادی شدہ فرض کی جائے تو ہماری ہی بنہوں اور مائوں کی طرح 9 لاکھ بہنیں اور مائیں بیوہ ہوگئیں۔ اور ہر شادی شدہ کے اوسط دو بچے فرض کئے جائیں تو 18 لاکھ بچے یتیمی کی چادر اوڑھ لئے۔ ظلم و جبر کی ایسی تاریخ رقم کی گئی کہ چشمِ افلاک اگر سالوں آنسو بہائے پھر بھی اپنا غم ہلکا نہیں کرسے گا، اگرقلم و الفاظ میں جان اور قرطاس کے سینے میں دل ہوتا تو شاید چیخ چیخ کر یہ داستان سننے سے عاجزی کا اعلان کرتی۔ لیکن جس معاشرے میں نوع انسانیت احساس کے جذبوں سے محروم ہوں وہان صفحہ و قلم سے یہ امید ایک خام خیال کے سوا کچھ بھی نہیں۔
لیکن یہ دنیا جو برتنے کیلئے ہے، بس جو ہوتا ہے گزرتا ہے، کربناک یادیں اور ماضی بن رہ گئے۔ لیکن نہ جانے کیوں معاشرے موجود خال خال مہاجر بھائیوں پر جب نظر پڑتی ہے تو ان کی بے سرو سامانی میں آمد یاد آتی ہے اور ایک لمحے کیلئے غمگین ہوجاتا ہوں پھر فیسبکی دنیا کی رنگینیوں میں مست ہو جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ناقابلِ انکار حقیقت جو تاریخ کے اوراق میں ثبت ہوئی کچھ یوں ہے کہ جب افغانستان پر امریکی درنگیوں کا آغاز ہوا تو وہان کی عوام تیں گروہوں میں منقسم ہوئ۔ مختصرا
ایک طبقہ جسے اپنے اور اپنے نوجوان نسل کی بہتریں مستقبل کی فکر ہوتی اور اپنے صحت مند خوابوں کی تعبیر کیلئے ہمسایہ ممالک اور دیگر یورپی اور مغربی ممالک کا رخ کیا جو ریفیوجز کے نام سے تعبیر ہوئے۔ دل و جان سے یہ بھی امریکی مخالف لیکن وسائل و مسائل کے بوجھ تلے افغانستان کو خیر آباد کہنے پر مجبور ہوئے۔

دوسرا طبقہ جو مصلحت کے تحت مذاکرات پر آمادہ ہوئ، مزاحم قوتوں کے خلاف موقف اختیار کی، سقوط کابل کی حمایت کی اور امریکی نواز حکومت کے قیام کی طرف مائل ہوئ۔ اور اپنی ان کاوشوں کی تکمیل کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔۔۔۔۔

آخری طبقہ جسے جان سے زیادہ عزت اور آزادی عزیز تھی۔
دنیا میں قتیل اب کچھ بھی ہو ہر حال میں اپنا حق لینگے
عزت سے جئے تو جی لینگے یا جام شہادت پی لینگے

کی عملی تفسیر بن ہر قسم کی اغیار کیلئے زہر قاتل اور قہر الٰہی بن کر آخری سکت تک لڑتی رہی اور دیس کی محبت میں لازوال قربانیوں کے داستاں رقم کرکے دنیا کو یہ پیغام دی کہ آزادی ہماری فطرت ہے دنیا کے کسی باطل کے آگے پشانی رگڑنا ہمیں گوارہ نہیں، بھوگ افلاس کے ہاتھوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھینگے لیکن کسی کے سامنے سر خم نہیں کرینگے۔
اور اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہی افغانستان کے محبییں اور اپنے سرزمیں کے حقیقی وارثین تھے۔
اور اس سے بھی انکار کی صورت نظر نہیں آتی کہ یہ طبقہ بھی علماء، صلحاء اور داڑھی پگڑی والوں ہی کی تھی۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ خود کو دہرا رہی ہے یا اعانتِ ظالم کا خمیازہ آج وہی عالمی دہشت گرد کہ جسے عراق و افغانستان اور دیگر ممالک میں بلواسطہ لاکھوں مسلماں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا دینے کے بعد بھی انکی اسلام دشمنی کی تشنگی نہیں بجھی اور بلاآخر ارضِ خداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف ناپاک اردوں سے دیکھنے کی ناپاک اور احمقانہ جسارت کر رہی ہے۔

احمق الحمقاء ٹرمپ شاید ماضی بھول چکا ہے کہ افغانستان اور عراق میں بے سرو ساماں مسلمانوں کے آگے انکی جدید ٹیکنالوجی کس طرح بے بس ہوئ، انکیجدید عسکری مہارتوں کے حامل فوج روتے پیٹتے اپنے ساکھ کی بحالی کے ساتھ افغانستان چھوڑنے کی راہیں ڈھونڈ رہا ہے۔
لیکن موصوف اپنی حماقتوں کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے دنیائے اسلام کے عظیم ملک کو للکار رہا ہے۔
خدا نہ خدا نہ کرے کہ طوفانِ مسلم ایک بار اٹھنے پر مجبور ہو جائے۔
بلفرض اگر نوبت آگئی تو بعید از قیاس نہیں۔
کہ روس کی طرح امریکی اتحاد بھی پارہ پارہ ہو جائگی اور تاریخ کے اوراق پر ایک اور داستانِ عبرت رقم ہوگی
(انشاء اللہ)

حالات کے موافق تمام پاکستان سراپا احتجاج ہے اور دنیائے کفر کو اپنی اتحاد و یگانگت کا پیغام دے رہے ہیں۔ لیکں کوئ محسوس کرے یا نہیں کل کی طرح آج بھی قیادت وہی سادہ لوح مسلمان کر رہے، ان اشخاص کا نام و نشاں تک نہیں جو تبدیلی نظام کی آڑ میں ایک ہی شخص کے خلاف اسلام آباد کے چوراہوں پر مہیںوں ڈھیرہ جمائے رہ سکتے ہیں، ان نوخیز جوانوں کا بھی کچھ پتہ نہیں چلا، جنہوں نے یومِ تشکر یوم آزادی کو گانوں میں دھن منا کر یوم عیاشی سے تعبیر کیں، میرے وہ احباب بھی کہیں نہیں ملے جو کھینچ تان کے نسبت کے قیام کے بعد اہل دنیا کو یہ باور کر رہے ہیں کہ ہمارا بھٹو کل بھی زندہ تھا آج بھی زندہ ہے۔۔۔۔۔

ستم بالائے ستم کہ میرے دیس والے آج بھی خواب غفلت میں ڈوبے ہیں حقیقی محسنیںِ پاکستان اور محبیں وطن کو پہچاننے سے اب بھی کوسوں دور ہیں۔ وقت کا تقاضاء ہے کہ دینی جماعتیں پر امن اور خوشحال پاکستان کیلے ذاتی مفاد لو پس پشت ڈال کر ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور حقیقی پاکستان کے قیام کیلئے اپنی قوتیں بروئے کار لائیں۔۔۔

صدائے درد سمجھیں یا ندائے آخری میرے دیس کے یارو خدارا اپنے محسنیں کو پہچانیں۔ زندگی کی ہر موڑ پر انہی خدا پرستوں کا دامن تھام کر امریکہ نوازوں اور مفاد پرستوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کریں۔۔۔۔۔۔