صدابصحرا۔۔امریکی فوج کا حصہ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

چھوٹی سی خبر ہے وائٹ ہاؤس کی ایک اہم میٹنگ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزارت دفاع پینٹا گان سے کہا ہے کہ افغانستان کے قدرتی وسائل میں امریکہ کا حصہ الگ کرکے باقاعدہ معاہدہ کیا جائے معاہدہ 99سالوں کے لئے ہوگا اور 99سالوں کے بعد اس کی تجدید کی جائے گی پینٹا گان کے حکام نے مہلت مانگی ہے کہ افغانستان پر امریکی قبضہ مستحکم ہونے تک قدرتی وسائل پر حصہ مانگنے کا معاہدہ موخر کرکے امریکی فوج کو مزید مہلت دی جائے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کا اصرار تھا کہ جلد از جلد معاہدہ کیا جائے افغانستان میں چار قسم کے قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں زمرد، لاجورداور دیگر قیمتی جواہرات کی کانیں ہیں انٹی منی،میتھیم،یورینیم،آئرن اور،گولڈ اور دیگر قیمتی معدنی ذخائر دریافت ہوئے ہیں جنگلات میں قیمتی عمارتی لکڑی موجود ہے جو مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کی چھاونیوں کے لئے حاصل کی جائیگی۔آبی وسائل اور زمین ہے جس میں باہر سے یہودیوں اور عیسائیوں کو لاکر آباد کیا جائے گا تاکہ اگلے 99سالوں میں اسرائیل کی طرح آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کو مغلوب کرکے غیروں کی حکمرانی قائم کی جائے اسرائیل کا قیام 1948ء میں عمل میں آیا مگر اس کی بنیاد 1917ء میں بالفور ڈیکلیریشن کے ذریعے رکھدی گئی تھی وائٹ ہاؤس کی تازہ خبر برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر اور فرانسسی ایجنسی اے ایف پی کے ذریعے اخبارات میں شائع کی گئی ہے اس خبر کے معتبر ہونے میں کوئی شک نہیں ڈونلڈٹرمپ نے یہ بات پوری تیاری کے بعد کہی ہے 1974ء میں افغانستان پر امریکی قبضے کا ابتدائی منصوبہ، سردار داود اور امیر خیبر کے قتل،خلق اور پرچم کا مشترکہ اقتدار،سعودی عرب اور پاکستان کے کردارسمیت زیر غور آیا تھا۔ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں پارٹیوں کا اس پر اتفاق تھا صدر فورڈ اور جمی کارٹر دونوں نے اس پر عمل کیا، رونالڈریگن اور بُش سینئر نے اس کو آگے بڑھایا 1974ء کے بلیو پرنٹ میں افغانستان کے قدرتی وسائل پر قبضے کا پورا نقشہ دیا گیا ہے1991ء میں امریکی فوج نے افغانستان کے 18مقامات پر ہاؤسنگ سکیموں کا نقشہ تیار کرکے دیا ہے طورخم سے جلال آباد جاتے ہوئے ایسی ہی ہاوسنگ سکیم دیکھنے کو ملتی ہے 25مقامات پر پہاڑوں کے لئے سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں ان پہاڑوں پر معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں یہ باتیں اچانک منظر عام پر نہیں آئیں ان کا باقاعدہ پس منظر ہے جنوبی سوڈان پر 2011ء میں ریفرنڈم کے ذریعے امریکہ نے قبضہ کیا 1984ء میں بھارتی انجینئروں کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ جنوبی سوڈان میں تیل کے وسیع ذخائر ہیں اس لئے وہاں جنگ کی آگ بھڑکائی گئی ہے اندازہ یہ ہے کہ 25سال کی خانہ جنگی کے بعد تیل کے ذخائر امریکی قبضے میں آجائینگے چنانچہ سوڈان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا اسامہ بن لادن نے پہلے سوڈان کی خانہ جنگی میں حصہ لیا پھر صومالیہ کی خانہ جنگی میں حصہ لیا پھر اُس کو پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل کیا گیا پھر ریفرنڈم ہوا ریفرنڈم کے نتیجے میں جنوبی سوڈان کے تیل پر امریکہ کا قبضہ ہوا لیبیا اور عراق کی کہانی بھی اس سے ملتی جلتی ہے کویت اور قطر کی کہانی بھی اسی نوعیت کی ہے افغانستان ایک ”رول ماڈل“ہے امریکی حکمت عملی کی سب سے کامیاب کہانی ہے افغانستان میں خانہ جنگی کی ایسی فصل کاشت کی گئی ہے کہ اگلے 200سالوں کے اندر اس ملک میں امن نہیں آسکتاہر 10سال بعد افغانستان کی حکومت کے ساتھ امریکی فوج کو افغان چھاونیوں میں جگہ دینے کا نیا معاہدہ ہوگا اور امریکی فوج نئے شرائط کے ساتھ غیر معینہ مدت یا کم از کم 200سال تک افغانستان پر قابض رہے گی اب تک افغانستان میں چار ذرائع سے آمدنی امریکہ کو ملتی ہے کوکنار کی کاشت اور ہیروئین کے کاروبار سے آمدنی آتی ے جنگلات کی عمارتی لکڑی کو دوبئی،شارجہ،ابوظہبی،قطر اور دیگر ممالک میں فروخت کرکے آمدنی حاصل کی جاتی ہے۔اسلحہ کی فروخت سے آمدنی حاصل کی جاتی ہے یہ اسلحہ دہشت گرد تنظیموں کو فروخت کیاجاتا ہے جن کو عرب ممالک فنڈنگ کرتے ہیں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے بھی امریکی فوج کو آمدنی ہوتی ہے قیمتی جواہرات زمرد، لاجورد وغیرہ کی مارکیٹنگ سے بے تحاشا دولت ہاتھ آتی ہے یہ جواہرات امریکی قبضے سے پہلے چترال، دیر،باجوڑ،مہمند اور پشاور کے راستے ہانگ کانگ کی بین لاقوامی منڈی تک لیجائے جاتے تھے 1991ء کے بعد اس کاروبار پر امریکی فوج نے قبضہ کیا اب افغانستان کے قدرتی وسائل پر امریکی قبضے کا نیا معاہدہ ہوگا۔