صدابصحرا۔۔ ترکی، بنگلہ دیش اور پاکستان۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Print Friendly, PDF & Email

پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ایک ہفتے کے اندر 20 کھرب روپے کا خسارہ ہوا پہلے دن 4 کھر ب روپے کے خسارے کے بعد سرمایہ کاروں نے سر مایہ روک لیا اور چھ دنوں کے اندر سٹاک ایکسچینج کا بٹھہ بیٹھ گیا شیخ رشید نے کہا ”بہت اچھا ہوا“سیاسی عدم استحکام کا معاشی زوال سے گہرا تعلق ہو تا ہے اگر جنرل مشرف کی حکومت 2017 ؁ء تک رہتی تو ڈالر 60 روپے سے اوپر نہ جاتا ہماری حکومت سارے بیرونی قرضے اتار چکی ہوتی اور توانائی کا بحران ختم ہوچکا ہوتا مستحکم حکومت ملک کو معاشی استحکام کے راستے پر ڈالتی ہے چاہے وہ سویلین ڈکٹیٹر ہو یا فوجی ڈکٹیٹر ہو حکومت کا استحکام ملکی ترقی کی ضمانت ہے اس لئے امریکہ، برطانیہ، بھارت اور دیگر ملکوں میں حز ب اختلاف الیکشن میں اپنی شکست کو تسلیم کرتی ہے اور اگلے الیکشن تک خاموش بیٹھتی ہے پارلیمنٹ کے اندر قانون سازی میں فعال کردار ادا کرتی ہے اور پارلیمانی مباحثوں میں پوری تیاری کے ساتھ حصہ لیتی ہے سڑکوں پر آکر شور نہیں مچاتی، گلیوں میں ہنگا مے نہیں کرتی پاکستان کے موجو دہ حالات بالکل ایسے ہیں جیسے حالات 20 سال پہلے ترکی اور بنگلہ دیش میں تھے اگر 45 سال پیچھے چلے جائیں تو جنرل ضیا ء الحق،جنرل کنعان ایورین اورجنرل حسین محمد ارشاد ایک دوسرے کے ہم عصر تھے، تینوں آپس میں گہرے دوست بھی تھے تینوں کا یہ خیا ل تھا کہ ملک پر حکمرانی سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں سیاستدان کرپٹ بھی ہیں نالائق بھی ہیں، نا اہل بھی ہیں ترکی کے سیاستدانوں نے 1996 ؁ء اور 2017 ؁ء کے درمیانی عرصے میں خود کو حکومت اور اقتدار کا اہل ثابت کر کے دکھا یا پاکستان کے سیاستدانوں کو اس مشن کا خیا ل نہیں آیا اگر خیال آیا تو اس مشن میں بری طرح سے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا آج ملک ایک بار پھر مارشل لاء کے دروازے پر دستک دے رہا ہے ٹرپل ون بریگیڈکی کی نقل و حرکت زیادہ دُور کی بات نہیں لگتی ”میرے عزیز ہم وطنو!“ کا جملہ کسی بھی وقت ہمارے کانوں میں رس گھول دیگا یہی وجہ ہے کہ سٹاک ایکسچینج کر یش ہونے پر شیخ رشید کے درجے کا تجربہ کار سیاستدان خوشی سے پھولے نہیں سماتا 20 سے زیادہ سیاستدانوں نے شیر وانیاں سلوانے کا آرڈر دیدیا ہے اور بیسیوں سیاستدانوں نے اپنی پسند کی وزارتیں حاصل کر نے کے لئے خاکی والوں سے رابطے کرلئے ہیں ایک قدیم کہانی ہے اور ایک جدید مشین ہے قدیم کہانی ققنس نامی پرندے کی ہے کہانی یوں ہے کہ ققنس لکڑیاں، تنکے اور گھاس پھوس جمع کرتا ہے ان کے اوپر بیٹھ کر مدھر سروں میں دیپک راگ الا پتا ہے لکڑی کے ٹال کو آگ لگ جاتی ہے ققنس جل کر راکھ ہوتا ہے پھر یہ راکھ کے ڈھیر سے جنم لیتا ہے پھر گھاس پھوس، تنکے اور لکڑیوں کا ٹال لگا تا ہے پھر دیپک راگ سے ان کو آگ لگاتا ہے پھر جل جاتا ہے پھر راکھ سے زندہ ہوکر وہی شغل دہراتا ہے یہ وہی دیپک راگ ہے جو شیخ رشید اور ہم نوامل کر گار رہے ہیں جدید مشین کا نام ایکسرسائز مشین ہے آپ مشین کے اوپر بیٹھ کر پاؤں ہلائیں قدم بڑ ھائیں تو مشین دکھاتی ہے کہ ایک گھنٹے میں 10 کلومیٹر کا فاصلہ طے ہوا آپ مشین سے نیچے اترتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ وہیں کھڑے ہیں جہاں مشین کا میٹر چلنے سے پہلے کھڑے تھے آپ نے ایک انچ کا سفر بھی نہیں کیا اور آپ فلمی گیت کے بول دُہر انے پر مجبور ہو جاتے ہیں
لے آئی ہے کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ توو ہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے
سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے خبردار کیا ہے کہ سیا سی عدم استحکام کافائدہ بھارت،امریکہ اور افغانستان کو ہو گا ہمارے دشمن چا ہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہو 20سال پہلے ترکی اور بنگلہ دیش کے دشمن بھی یہی خواہش رکھتے تھے لیکن سیاستدانوں نے دشمنوں کو ناکامی سے دوچار کیار جب طیب اردگان اور شیخ حسینہ واجد کو اس کا م میں کامیابی کیلئے صبر آزما جدوجہد کرنے کی ضرورت پڑی رحب طیب اردگان سے پہلے نجم الدین اربکان کا دور آیا مگر اُس کو کامیابی نہ ملی اربکان کی ناکامی کے بعد اردگان نے اقتدار سنبھا ل کرا پنے پتے احتیاط سے کھیلے ایک مرحلہ آیا جب انہوں نے عبداللہ گل کوصدارت کے لئے نامزد کیا اسٹبلشمنٹ نے اعتراض کیا کہ عبداللہ گل کی بیوی پردہ کرتی ہے ایسا شخص صدر نہیں بن سکتا اردگان نے دو سال انتظار کیا دو سال بعد اس با پردہ خاتوں کا شوہر ترکی کا صدر بن گیا پھر وہ ترکی کا وزیر اعظم بنا اسٹبلشمنٹ نے فتح اللہ گولن کے ذریعے اردگان کے حکومت کاتختہ اُلٹ نے کی کوشش کی اردگان نے استنبول کی سڑکوں پر ترک عوام کواکھٹا کر کے اسٹبلشمنٹ کا مقابلہ کیا فتح اللہ گولن کے کندھے پر سوار ہو کر آنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی عوام کو اردگان پر اعتماد تھا کہ یہ شخص اپنی بیٹی اور داماد کے لئے اقتدار نہیں مانگتا“اس لئے ترک عوام نے اردگان کا ساتھ دیا بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد نے بھی عوامی حمایت حاصل کر کے اسٹبلشمنٹ کے مقابلے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ان کے ہاں ایساہی معاملہ ہے بیٹی اورداماد کی جگہ قوم اور ملک کا نام ہے اس لئے عوام نے ساتھ دیا پاکستان کو ترکی اور بنگلہ دیش کی طرح سیاسی استحکا م اور معاشی ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے سیاستدانوں کو اپنی اولاد کی معصوم خواہشوں کے اوپر پاوں رکھنا پڑے گا ورنہ اسٹبلشمنٹ انہیں تگنی کا ناچ نچائے گی۔