چترال (محکم الدین) محکمہ ہیلتھ چترال کی ناہلی اور ناقص کارکردگی کے سبب باؤلے اور آوارہ کُتوں نے چترال شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور دن بدن کُتوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کیلئے چترال شہر کی سڑکوں پر پیدل چلنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے، خصوصا خواتین اور بچے پیدل چلنے کی ہمت ہی نہیں کرتے۔ کُتوں نے مین چترال اڈا بینک چوک اتالیق بازار، پی آئی اے چوک، سیکرٹریٹ روڈ، چترال پولیس لائن روڈ، کڑوپ رشت بازار، گولدور چوک چیو پُل اور جغور چوک و بازار میں اپنی چیک پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں اور ہر مقام پر دس سے تیس کُتے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ جنہوں نے لوگوں کی نقل و حرکت کی راہ میں شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔۔ خصوصا رات کے وقت پیدل چلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ لوگ ان سے بچنے کیلئے محفوظ راستے تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے باوجود ان کے کاٹنے سے محفوظ نہیں ہیں جبکہ ہسپتال میں انٹی ربیز (Anti Rabiesانجکشن دستیاب نہیں ہیں۔ جن سے لوگ اپنا علاج کر سکیں۔ صوبائی حکومت کی طرف سے صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے اس کے تمام شعبوں کے فنڈز دُگنا کرنے کے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ کُتے کے کاٹے مریض کو چار انجکشن لگانے پڑتے ہیں۔ جن کی قیمت چار ہزار روپے بنتی ہے اور اس کی خرید ایک عام اور غریب آدمی کے بس کی بات نہیں۔ عوامی حلقوں نے ڈی ایچ او،ٹی ایم اے ضلعی انتظامیہ کی بے حسی پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ کہ ان لوگوں کو عوام کی مشکلات کا ذرا برابر احساس نہیں ہے۔ اور یہ لوگ پیدل چلنے والوں کے مسائل سے بالکل بے خبر ہیں۔ انہوں نے متعلقہ اداروں سے سوال کیا ہے۔ کہ کیا ان کُتوں کو مارنے اور اُنہیں ٹھکانے لگانے کیلئے حکومت کی طرف سے محکمہ صحت اور ٹی ایم اے کو فنڈ فراہم نہیں کی جاتی ۔ یا انصاف کی صوبائی حکومت نے محکمہ صحت چترال کو کُتوں کے نسل کی ا فزائش اور ٹی ایم اے کو چترال کے تمام چوراہوں اور بازاروں کو کُتوں کے حوالے کرنے کی نئی ذمہ داری تفویض کردی ہے۔ اس حوالے سے جب ٹی ایم اے سے رابطہ کیا گیا۔ تو ایڈمن آفیسر رحمت نے کہا۔ کہ ٹی ایم اے کے پاس اس کیلئے فنڈ کی کوئی کمی نہیں، تاہم ان کُتوں کو زہر دے کر ہلاک کرنے کا کام محکمہ ہیلتھ کا ہے۔ وہ جس وقت بھی ہمیں اس حوالے سے اطلاع دے گا۔ ہم بلا تاخیر ٹھکانے لگانے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ بڑی تعداد میں کُتے لوگ اطراف کے دیہات سے لاکر شہر چھوڑ جاتے ہیں۔ او ر شہر میں کُتوں کی افزائش کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ جسے کنٹرول کئے بغیر ہلاک کرنے سے مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ اس حوالے سے ڈی ایچ او چترال کا موقف جاننے کیلئے بار بار کوششوں کے باوجود رابطہ نہ ہو سکا۔ عوامی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے، کہ ان کُتوں کو جلد ہلاک کرنے کی کوشش نہ کی گئی۔ تو چترال میں آوارہ اور باؤلے کُتوں سے مرض پھیلنے کا خطرہ ہے۔ جس کی ذمہ دار ڈی ایچ او چترال، ٹی ایم اے،ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور ضلعی انتظامیہ پر ہوگی۔ انہوں نے کہا۔ کہ ان اداروں کی غفلت دانستہ طور پر پی ٹی آئی حکومت کو بد نام کرنے کی سازش ہے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ۔۔۔تبدیلیوں پر پا بندی
- کھیلاپر چترال میں جشن کا غ لشٹ آج جمعرات کے روز شروع ہوگئی
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔۔”ہمارے ہاں خدمت کا صلہ“۔۔۔۔
- مضامینداد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔مزدوروں کا دن
- ہومتھانہ ایون کی حدود میں لویر چترال پولیس نے منشیات کے خلاف کریک ڈاون کے دوران کالاش وادی رمبور میں کالاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے کرنل کے بیٹے میجر کو دیسی شراب کی بڑی مقداروادی سے چترال شہر ٹرانسپورٹ کرنے کی پاداش میں رنگے ہاتھوں گرفتارکرلیا۔
- مضامینداد بیداد۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔انسا نی حقوق کا آئینہ
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔”زندگی سے ڈرو“۔۔
- سیاستلویر چترال میں تحصیل چیرمین دروش کے الیکشن میں پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ امیدوار سید فریدجان ایڈوکیٹ نے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کامیابی حاصل کی ہے۔
- مضامینداد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔نظر آنے والے کام
- ہومچترال کے معروف صحافی گل حماد فاروقی ہفتے کی صبح ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں اچانک حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے