قطر، خلیجی ممالک تنازعہ اور اس کا حل!۔۔تحریر: محمد صابر گولدور،چترال

Print Friendly, PDF & Email

امریکی صدر ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے کچھ ہی روز بعد سعودی عرب کی جانب سے قطر پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور ہر طرح کے سفارتی تعلقات قطر کے ساتھ ختم کردئیے جاتے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے باقی خلیجی ممالک یو۔اے۔ای،یمن،بحرین جیسے ممالک بھی قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔اور قطر پر دہشتگردوں کی مالی معاونت القاعدہ،الاخوان المسلمون،حماس اور داعش جیسی تنظیموں کے ساتھ روابط رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے جن پر پہلے ہی سے خلیجی ممالک میں پابندیاں عائدہیں۔اور ایرانی ملیشیاء جسے پاسدارن انقلاب کہا جاتا ہے کے ساتھ خفیہ روابط رکھنے جیسے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔جبکہ قطر نے ان الزامات کو جھوٹ اور بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔
قطرکی اپنی آبادی تقریبا پانچ لاکھ ہے اورہزارون،لاکھوں غیر ملکی قطر میں کام کے سلسلے میں رہائش پذیر ہیں۔1996ء سے قبل قطر کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔اس وقت کے قطری حاکم بدوتھے مراد یہ لیجئے کہ ایک غیر تعلیم یافتہ سیدھے سادھے حاکم تھے۔ملک قطر تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ملک ہے۔ سرکاری دولت حاکم قطر اپنے ذاتی اکاوئنٹ میں رکھتے تھے۔ان دنوں قطر کے حاکم سیر وتفریح کے لیے سوئرزلینڈ کے لیے جارہے تھے۔انکے نوجوان بیٹے نے ان سے ہاتھ ملایا اور انہیں ائیر پورٹ سے رخصت کیا جب جہاز نے اڑان بھری تو ان کے بیٹے نے سرکاری ٹی۔وی پر آکر اعلان کیا یعنی اپنی باپ کا تختہ الٹ دیااور خود امیر قطر بنے جبکہ بدو حاکم سوئرزلینڈ میں ہی رہ گئے جہاں آج بھی ان کی شاہی محل موجود ہے۔نوجوان امیر قطر نے شیخ حامد بن جاثم الثانی کو قطر کا وزیر اعظم چنا۔موجودہ قطری وزیر یہ وہی قطری شہزادے ہیں جو آج کل پاکستان میں اپنے متنازعہ خط کی وجہ سے زبان زد عام ہیں۔شیخ حامد بن جاثم الثانی اپنی کمال دور اندیش کی وجہ سے موجودہ ترقی یافتہ اور خوشحال قطر کے بانی بھی مانے جاتے ہیں۔۔
1996 ء میں جب نئے نوجوان امیر قطر نے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی تب اس نے نہایت کمال دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور شیخ حامد بن جاثم کو قطر کا وزیر اعظم منتخب کیا اس فیصلے کے کافی اچھے نتائج آئے۔ جس نے الجزیرۃ انگلش اور عربی سروس کی د ربنیادرکھی اوربرطانوی نشریاتی ادارے BBC عربی سروس سے منسلک بہترین عرب صحافیوں کو دگنا تگنا تنخواہ دے کر الجزیرۃ میں کام کرنے کا موقع دیا۔۔قطر کی ترقی اور بین الاقوامی سطح پر نام الجزیرۃ ہی کی بدولت ہوئی ہے اور اصل کہانی یہی سے شروع ہوتی ہے کیونکہ میڈیا ایک شاندار چیز ہے میں اگر میڈیا کو ایٹم بم سے تشبہ دوں توبلکل بھی غلط نہ ہوگا۔الجزیرۃ نے قطر کو بین الاقوامی سطح پر ابھارا قطر کو وہ مقام دیاجس کا قطر الجزیرۃ کے بغیر سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
اصل میں سارا معاملہ ہی الجزیرۃ کی وجہ سے کھڑا ہوا ہے۔خلیجی ممالک اور قطر کے بیچ تنازعے کا سبب الجزیرۃ ہی بنا کیوں کہ الجزیرۃ نے یمن مین جاری خانہ جنگی میں ایرا نی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے لیے آواز اٹھائی اور الاخوان المسلمون کے حق میں بھی کافی کام کیااور تو اور خلیج ممالک کے سربراہان کے خلاف بولنے والے کو کھل کر بولنے دہا۔مگر عین اسی لمحے دوسری اور تیسری دنیا کے ساتھ قطر کے تعلق کا سبب بھی یہی الجزیرۃ بنی۔آپ کو بخوبی معلوم ہوگا کہ دنیا کے مشہور ومعروف چینل CNN ایک امریکی چینل ہے اس کے علاوہ انہیں کی ایک اور معروف نیوز چینل FOXبھی ہے۔اسی طر ح قدیم برطانوی نشریاتی ادارہ BBC کو تو کون نہیں جانتا امریکہ اور برطانیہ کی پہچان کے پیچھے میڈیا ہاؤسز کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔اس صف میں امریکہ اور برطانیہ کے بعد قطر تیسرے نمبر پر ہے اور یہ قطر کے لیے بہت بڑی اعزاز کی بات ہے۔ہمارا پڑوسی ملک ایران بھی کافی کوششوں میں لگا ہوا ہے کہ وہ بھی بین الاقوامی معیار کی کوئی نیوز متعارف کرائے تقریبا کسی حد تک کامیاب بھی ہوچکا ہے۔ان کی PRESS ٹی۔وی بھی باہر ممالک میں کافی دیکھی اور پسند کی جارہی ہے۔اس صف میں بدقسمتی سے پاکستان کا فی پیچھے ہے جب بھی بین الاقوامی میڈیا پاکستان سے خبریں اٹھاتا ہے تو ایک دو پاکستانی چینلز کانام آتا ہے۔جن سے ایک عام پاکستانی شہری سمیت عسکری قیادت بھی ناخوش اورنالاں نظر آتی ہے۔مگر امید کی ایک کرن BOL نیٹ کی صورت ہمیں نظر آتی ہے امید ہے کہ آگے جاکر BOL نیٹ ورک ہماری امیدوں پر پورا اترے۔خلیجی ممالک کی باہمی اتحاد و اتفاق پر مبنی ایک کونسل ہے جسے جی جی سی (گلف کورپوریشن کونسل)کہتے ہیں اس میں سعودی عرب کے علاوہ یوا۔اے، ای قطر، بحرین یمن اورکویت جیسے ممالک شامل ہیں ان ممالک نے قطرپر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔قطر پر دہشتگردوں کی معالی معاونت کا اور ایران کی پاسدارانا انقلاب،حماس اور حزب اللہ کے ساتھ خفیہ تعلقات رکھنے کے بھی سخت ا لزامات ہیں۔جبکہ قطر نے ان الزامات کو جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔قطر جغرافیائی طور پر خلیجی ممالک کے بلکل درمیان واقع ہے۔قطرمعاشی اور فضائی طور پر سعودی عرب اور یو۔اے۔ای پر انحصار کرتا ہے۔قطر کا 70% خوراک اور پانی سعودی عرب سے آتا ہے۔جبکہ فضائی حدود پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے اور قطر کو تنبیح کی گئی ہے کہ قطر اپنی خارجہ پالیسی کوفوراًتبدیل کرے یا تنہائی کا شکار رہے اب دیکھنا یہ ہے کہ قطر کب تک پا بندیوں اور تنہائی کا متحمل رہ سکتا ہے؟
بحران کا حل!
اس تنازعے اور بحران کا حل یہی ہے کہ قطر کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات درست کرے خلیجی ممالک کے ساتھ تعاون کرے اور اپنی خارجہ پالیسی کو ارسرنو ترتیب دے کیونکہ قطر کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے خلیجی ممالک میں عدم استحکام کا خطرہ پایا جاتا ہے سعودی عرب اور ایران جوکے پہلے ہی سے ایک دوسرے کے حریف ممالک ہیں قطرکا جکاو ایران کی جانب ہی اس تنازعہ کی وجہ ہے۔ ایران پر پہلے ہی سے الزامات عائد ہے کہ ایران خلیجی ممالک میں داخل اندازی کررہاہے اس ساری صورت حال میں قطر کو GCCممالک کے ساتھ بغاوت کہ بجائے تعاون کرنا چاہیے تبھی حالات مزید خراب ہونے سے بچیں گے۔۔۔