رموز شادؔ۔۔ رمضان اور مصنوعات شیزان کی کثرت استعمال۔۔ تحریر۔۔ارشاد اللہ شادؔ۔۔ بکرآباد چترال

Print Friendly, PDF & Email

شیزان قادیانیوں کی بدنام زمانہ مشروب ساز فیکٹری ہے۔ اقتصادی لحاط سے یہ فتنہ، قادیانیت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کمپنی کے پٹرول سے جھوٹی نبوت کی گاڑی چلتی ہے۔ المختصر شیزان کمپنی قادیانی نبوت کا اقتصادی یونٹ ہے۔ جس طرح تاجدار ختم نبوت جناب محمد ؐ کی سچی نبوت کیلئے حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور حضرت عثمان غنی ؓ اپنی دولت بے دریغ خرچ کیا کرتے تھے آج اسی طرح مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کی تشہیر کیلئے شیزان کمپنی اپنا سرمایہ بے دریغ خرچ کر رہی ہے۔ گزشتہ برسو ں میں شیزان کمپنی نے قادیانیت کی تبلیغ و تشہیر کا ایک ریکارڈ کام کیا ہے۔ پاکستان میں قادیانیوں کی سالانہ جلسہ پر پابندی لگنے پر یہ جلسہ ملعونہ لندن میں منعقد ہوا جس پر ایک زر کثیر خرچ ہوا جس کا نصف خرچہ شیزان کمپنی نے ادا کیا۔ اے مسلمان یہ تیرے سوچنے کامقام ہے! جب تو مصنوعات شیزان خریدتا ہے تو تیری جیب سے ایک خطیر رقم نکل کر مالکان شیزان کی تجوریوں میں جا پہنچتی ہے اور پھر نبوت کاذبہ کا یہ کاروبار ی ادارہ تیری رقم کا دسواں حصہ قادیانیوں کے مرکز ی فنڈ میں پہنچا دیتا ہے۔ اب اگر تیری رقم کسی قادیانی عبادت گاہ کی تعمیر پر خرچ ہوئی تو اس بیت الشیطان کی تعمیر میں تو کتنا معاون و مددگار؟ تیری رقم سے کسی قادیانی مبلغ کو تنخواہ ملی اور اس نے کسی مسلمان کو قادیانیت کے دام میں پھنساکر قادیانی بنا لیا تو اس کا ایمان لوٹنے میں تو کتنا ملوث؟ تیری رقم سے تحریف شدہ قرآن اور مسخ کردہ احادیث شائع ہوئے تو اسلام کے خلاف اس گھناؤنی سازش میں تیرا کتنا حصہ؟ تیری رقم سے قادیانی اسلحہ خریدیں اور اس اسلحہ سے کسی مجاہد ختم نبوت کو شہید کردیں توا س قتل نا حق میں تو کہاں تک شامل؟ اے رسولؐ کے امتیوں! مصنوعات شیزان خریدنا جھوٹی نبوت کے فنڈ میں پیسہ جمع کروانا ہے، ختم نبوت کے لٹیروں کی کمر مضبوط کرنا ہے، ناموس رسالت کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں میں خنجر دیناہے۔لیکن اگر ہم لاکھوں مسلمان بھائی مصنوعات شیزان خریدیں اور لاکھوں روپیہ قادیانی فنڈ میں جمع کروائیں اور اس بھاری رقم کے توسط سے قادیانی خطرناک ہتھیاروں سے مسلح ہو کر سرور کائنات ؐ کی عزت و ناموس پر حملہ آور ہوں اور ہمیں پرواہ تک نہ ہو۔ بلکہ بار بار شیزان خرید کر ناموس رسالت کے ان قزاقوں کی جھولیاں سیم و زر سے بھرتے رہیں اور اس گناہ عظیم کر ارتکاب بار بار کرتے رہیں تو ہماری دینی غیرت و اسلامی حمیت کا معیار کیا ہوا؟
خوف خدائے پاک دلوں سے نکل گیا۔۔۔۔۔ آنکھوں سے شرم سرور کون و مکان گئی۔۔۔ کوئی تو ناصح اٹھے میری قوم کو سمجھانے کیلئے۔۔
جب کسی دکاندار سے شیزان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ تو وہ کہتا ہے کہ جناب! بائیکاٹ ایک ظلم ہے کیونکہ شیزان فیکٹریوں میں مسلمان بھی کام کرتے ہیں۔ اگر شیزان کا بائیکاٹ کر دیا جا ئے تو بے چارے ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔ ان دکاندار بھائیوں کی خدمت میں التماس ہے کہ یہ مسلمان ملازمین شیزان کمپنی کا بہت موثر ہتھیار ہے۔ اور قادیانی اس ہتھیار کو کمال مہارت سے استعمال کرتے ہیں۔ شیزان کمپنی کی تما م کلیدی آسامیوں پر قادیانی قابض ہے۔ مسلمان ملازمین تو معمولی تنخواہوں پر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ٹرکوں کے ڈرائیور، کنڈیکٹر اور بوجھ اتارنے چڑھانے والے مزدور مسلمان ہی ہوتے ہیں۔شیزان کمپنی میں کام کرنے والے مسلمان! اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے۔ اس کے رزق کے خزانے بڑے وسیع۔۔ مرتدوں کے ہاں تیری ملازمت باعث ندامت دنیا و آخرت ہے۔۔ اور تیری غیرت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔۔ رحمان و رحیم خدا پر بھروسہ کر۔۔ شیزان کی ایمان سوز نو کری کو جوتے کی ٹھوکر مار۔۔ یقینا اللہ بہتر رزق دینے والا ہے۔
اے شیزان پینے والے بھائی! شیزان پی کر اللہ کے عذاب کو دعوت نہ دے۔۔ مرتدین کا یہ موذی مشروب تجھے کسی مرض میں مبتلا نہ کردے۔۔ اور زندگی کی ساری رعنائیاں تجھے داغ مفارقت نہ دے جائیں۔۔ اے شیزان بیچنے والے بھائی! شیزان بیچ کر اپنی غیرت اور عشق رسول ؐ نہ بیچ، دشمنا ن رسول کا کاروباری ایجنٹ بن کر قادیانیت نہ پال، یہ کاروبار شنیع کرنے سے جو چند ٹکے تیرے گھر آئیں گے وہ اپنے ساتھ لاکھوں نحوستوں کے انبار بھی لائیں گے۔۔ اللہ اور اس کے رسول ؐ کیلئے اس ذلیل کاروبار پر تھوک دے ورنہ۔۔ تیری زندگی دوسروں کیلئے تماشہ عبرت نہ بن جائے۔
ناموس دین حق کے نگہبان کو کیا ہوا؟۔۔۔۔۔۔۔ اے رب ذوالجلال مسلمان کو کیا ہوا۔۔
سوچنے کی بات ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ڈاکٹر شوگر کے مریض کو میٹھی اشیاء استعمال کرنے سے روکے تو وہ فوراََ رک جا تاہے۔ اگر بلڈ پریشر کے مریض کو نمک استعمال کرنے سے منع کرے تو وہ فوراََ منع ہوجا تا ہے۔ اگر کھانسی کے مریض کو کٹھی اشیاء سے باز رہنے کی تلقین کرے تو کٹھی اشیاء کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ اگر دل کے مریض کو سخت کام کاج سے روکے تو فوراََ اس کی نصیحت پر کان دھرے جاتے ہیں، لیکن اگر منبر و محراب سے شیزان کے بائیکاٹ کی آواز یں گونجیں اور دینی رسائل و جرائد مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑتے ہوئے شیزان کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلائیں تو کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ جان کی حفاظت کیلئے تو ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق سب کچھ چھوڑا جا سکتا ہے لیکن کیا ایمان کی حفاظت کیلئے شیزان نہیں چھوڑا جا سکتا؟
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اے میرے مسلمان بھائی! اگر روٹی جلی ہوئی ہو تو تیری طبیعت پر گراں گزرتی ہے، اگر سالن بد ذائقہ ہو تو تیرے گلے سے نیچے نہیں اترتا، اگر اشیائے خوردنی پر مکھیاں بھنبھنارہی ہو ں تو تجھے گھن آتی ہے لیکن شیزان جیسا ارتدادی مشروب اپنے معدہ میں انڈیلتے ہوئے تجھے کوئی گھن نہیں آتی۔ اپنے دشمن کے گھر کی چیز تو تُو نہیں کھاتا۔ لیکن رسول ؐ کے دشمن کے گھر کا مشروب غٹا غٹ پیتا ہے۔ جو تیری توہین کرے اس کیلئے تو تیرے گھر کا دروازہ بند ہوجاتاہے لیکن شیزان کیلئے تیرے گھر کے دروازے کھلے اور پینے کیلئے تیرا منہ بھی کھلا! تو کتنے شوق سے اپنے فریج اور باورچی خانے میں شیزان کی شیطانی بوتلوں کو سجاتا ہے۔ جو تجھے ضرر پہنچائے وہ تیری دعوت میں نہیں آسکتا لیکن دشمن اسلام شیزان کی تیری دعوتوں میں اجارہ داری! تیرے اسلاف نے اللہ اور اس کے رسول ؐ کی محبت میں وطن چھوڑ دئے، ماں باپ چھوڑ دئے، بیٹے چھوڑ دئے، یارانے دوستانے چھوڑ دئے اور ایک تُو ہے کہ شیزان نہیں چھوڑ سکتا اور شاید حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے تیرے جیسوں کے لئے ہی کہا تھاکہ ”یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود“۔
اے آغوش دنیا میں مست بھائی! موت ہر دم ہمارے تعاقب میں ہے۔ عنقریب یہ ہمیں اپنے پنجوں میں دبوچ لے گی اور ہماری رگ جاں کاٹ ڈالے گی اور ہم اپنے اعمال کی جوابدہی کیلئے اس جہان فانی سے اُس جہان باقی میں پہنچ جائیں گے۔ موت کا کسی وقت بھی حملہ آور ہونا اور ہمیں اچک لے جانا ذہن میں رکھو۔ اور سوچو اگر ہم نے صبح شیزان کی بوتل پی اور دوپہر کو مرگئے یا دوپہر کو شیزان کی چٹنی کھائی اور شام کو جان کی بازی ہار گئے یا شام کو شیزان کا اچار کھایا اور رات کو لقمہ اجل بن گئے یا رات کو شیزان کی جیلی کھائی اور آدھی رات کو انتقال کر گئے۔ ان صورتوں میں شیزان ہمارے پیٹ میں ہوگی۔ اور ہم قبر کی پیٹ میں جانے کیلئے تیار! جب ہمیں قبر کے پیٹ میں اتارا جائے گا اور منکر نکیر ہم سے سوال و جواب کیلئے آئیں گے تو ہمارے منہ سے شیزان کی بدبو آرہی ہوگی۔ قبر سے اٹھا کر جب میدان حشر میں لایا جائے گاوہاں بھی ہمارا منہ یہ بدبو اگل رہا ہوگا۔ ساقی کوثر ؐ کے حضور جب جام کوثر مانگنے جائیں گے تو وہاں بھی اس بدبو کے بار خجالت سے ہمارا سر نہیں اٹھے گا۔ جب ہمارے منہ سے دشمن رسول ؐ شیزان کی ارتدادی بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے ہوں گے تو پھر ہم کس منہ سے شافع محشر ﷺ سے شفاعت کا سوال کریں گے؟ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔۔ اور موت کسی کو مہلت نہیں دیتی۔۔ زندگی کی چند مستعار گھڑیوں کو مہلت جانیں۔۔ خوب غور کریں۔۔ سوچ کے مراقبے میں بیٹھیں۔۔ فکر کے اعتکاف میں بیٹھیں۔۔ کیونکہ آمد عزرائیل کے بعد نہ سوچ سے کچھ حاصل ہوگا اور نہ فکر کا کچھ فائدہ۔
قلم ایں جا رسید و سر بشکست……!!